کیا بی ایل اے اور ٹی ٹی پی نے مل کر پنجگور میں حملہ کیا؟

بلوچ قوم پرست جنگجووں کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین روز گزر جانے کےباوجود بھی بلوچستان کے علاقے پنجگور میں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں میں جنگ جاری ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوشکی اور پنجگور میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پرحملے ماضی کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے کے ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے جنھوں نے عسکری حکام کو پریشان کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی مربوط کوشش کا آغاز یکم فروری کو ہوا تھا۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق جہاں نوشکی میں کارروائی چند گھنٹے بعد ہی ختم ہو گئی وہیں پنجگور میں 76 گھنٹے گزر جانے کے باوجود آپریشن کے خاتمے کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز فرار ہو کر علاقے میں ہی پناہ لینے والے حملہ آوروں کی تلاش میں ہیں۔ اب تک سرکاری طور پر ایک میجر سمیت سات فوجیوں کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ جوابی کارروائی میں 13 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کرنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔ لیکن دوسری جانب بلوچ عسکریت پسندوں کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نوشکی حملے میں اب تک سو سے زائد سکیورٹی فورسز کے جوان مارے جا چکے ہیں۔

یہ دعوی بھی کیا گیا یے کہ بلوچ لبریشن آرمی نے نوشکی کیمپ میں موجود فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اس دوران ائیر فورس کی جانب سے بمباری کی اطلاعات ہیں مگر بڑی یرغمالیوں کی وجہ سے براہ راست بمباری سے گریز کیا جا رہا ہے۔ تاہم آئی ایس پی آر نے بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے کئے جانے والے دعووں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے صرف سات فوجی جوانوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔

آئی ایس پی آر نے حسب سابق کہا ہے کہ حملہ آورں کی پشت پناہی بھارت کررہا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستانی حکام نے مسلسل یہ دعوی کیا ہے کہ اب ہمارا مغربی بارڈر محفوظ ہو گیا یے۔ ایسے میں اگر بھارت بلوچ عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر بھی رہا ہے تو ذمہ داری ریاست پاکستان پر آتی ہے۔

پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نوشکی حملے کے بارے میں خاموش ہے اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے علاوہ کچھ رپورٹ نہیں کیا جا رہا۔ سوشل میڈیا پر بلوچ قوم پرست پنجابی عوام سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں میں نظر رکھیں اور گنتی کریں کہ انکے صوبے میں جوانوں کی کتنی لاشیں آرہی ہیں۔

ان حملوں کے بعد یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا بلوچ تنظیمیں، ایسی تربیت اور اہلیت حاصل کر چکی ہیں کہ وہ اس قسم کے مربوط اور حملے کر سکیں اور پھر کئی دنوں تک ہماری سکیورٹی فورسز کے جوانوں کا مقابلہ بھی کر سکیں۔ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی جانب سے قبول کی گئی۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچ حملہ آور غیر معمولی تربیت یافتہ لگتے ہیں جو کہ گوریلہ اسٹائل میں لڑ رہے ہیں۔

نوشکی اور پنجگور میں حملوں سے قبل دالبندین میں چینی انجنیئروں کی بس پر حملہ، کراچی میں چینی قونصلیٹ اور کراچی سٹاک ایکسیچینج پر بلوچ شدت پسندوں کے حملوں میں جنگجو جانی نقصان نہیں پہنچا پائے تھے اور اس سے پہلے ہی ہلاک کر دیے گئے تھے۔ لیکن ان حملوں کے مقابلے میں حالیہ حملوں کی جہاں شدت زیادہ تھی، وہیں ہلاکتیں بھی زیادہ ہوئی ہیں۔

الطاف حسین کے کیس میں فوج کی طاقت کا ذکر کیوں؟

حالیہ حملوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں وہ طریقۂ کار بھی استعمال کیا گیا جو ماضی میں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی سب سے بڑی شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان استعمال کرتی رہی ہے۔ نوشکی میں ایف سی کے کیمپ پر حملے کا آغاز بارود سے بھری گاڑی کے کیمپ کے داخلی دروازے پر دھماکے سے کیا گیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نوشکی نعیم گچکی کے مطابق دو فروری کی شام ساڑھے سات بجے گاڑی داخلی دروازے سے ٹکرائی جس کے بعد دھماکہ ہوا اور حملہ آور اندر داخل ہو گے۔ حکام کا اندازہ ہے کہ اس خودکش حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں 30 کلوگرام کے قریب بارودی مواد موجود تھا۔

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے مرکزی دروازہ توڑ کر اندر گھسنے کا طریقۂ کار ماضی میں ٹی ٹی پی کے جہادی گروہ استعمال کرتے آئے ہیں جبکہ بی ایل اے نے نوشکی حملے کے بعد جو تصاویر جاری کی ہیں وہ سب بلوچوں کہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائی کی تربیت کے لیے تحریک طالبان جیسی تنظیم کی مدد کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کے سکیورٹی فورسز سے تین روز تک مقابلے کی نظیر بھی ماضی میں نہیں ملتی جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک غیر روایتی تھا۔ حملہ آوروں کے بارے میں لگتا ہے کہ وہ بہت ذیادہ تربیت یافتہ ہین اور انھیں ٹریننگ اور لاجسٹکس کے حوالے سے کہیں نہ کہیں سے مدد حاصل تھی۔ عین ممکن ہے کہ بلوچ شدت پسند افغانستان میں غیر ملکی افواج سے برسرِپیکار رہنے والے شدت پسندوں سے بھی تربیت لے رہے ہوں۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے نوشکی اور پنجگور میں مارے جانے والے حملہ آوروں کی جاری کردہ تصاویر میں ان کے پاس آر پی جی راکٹ لانچر اور دیگر جدید اسلحہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ماضی میں بلوچ عسکریت پسند سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ایم ون، سیون ایم ایم، تھری ناٹ تھری جیسی رائفلز استعمال کرتے تھے تاہم لانگ رینج ہتھیار نہیں ہوتے تھے لیکن حالیہ جھڑپوں میں نظر آتا ہے کہ فریقین کے پاس تقریباً یکساں اسلحہ ہے۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ سب بلوچ عسکریت پسند ڈریگنوف سنائپر رائفلیں اور رومانیہ کی بنی ہوئی ایس ایل ڈی ایم آر رائفلیں بھی استعمال کر رہے ہیں اور یہ دونوں لانگ رینج رائفلز ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نوشکی اور پنجگور حملوں میں عسکریت پسند جدید اسلحے و سازو سامان بشمول نائٹ ویژن آلات سے مسلح تھے۔ عسکری حکام نے فون سروس نیٹ ورک جام کیا ہوا تھا اس کے باوجود وہ اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس سیٹلائیٹ فون بھی تھے۔ پاکستانی حکام جدید اسلحے اور ایسی کارروائیوں کی فنڈنگ کے لیے پاکستان کے روایتی حریف انڈیا کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حملہ آور بیرونِ ملک اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں بلوچ عسکریت پسندوں کی کارروائیاں زیادہ منظم اور موثر ہو گئی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب ان کے پاس جدید ہتھیار آ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ خطے میں گذشتہ دو دہائیوں سے افغانستان کی جنگ کی وجہ سے اسلحے کا بول بالا رہا ہے۔

دوسری جانب کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان نے وفاقی وزیر شیخ رشید کے تحریکِ طالبان سے مدد لینے کے الزام کو مسترد کیا یے۔ اسکا کہنا تھا کہ ’بی ایل اے اس وقت محض ایک اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر ( براس) کا حصہ ہے، جس میں بی ایل اے، بی ایل ایف ، بی این اے، بی آر جی اور ایس آر اے شامل ہیں۔ ان میں سے تین بلوچ آزادی پسند سیکولر مسلح تنظیمیں ہیں اور ایک سندھی آزادی پسند سیکولر مسلح تنظیم ہے، اس کے علاوہ بی ایل اے کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں۔

تاہم پاکستانی عسکری حکام کا خیال ہے کہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی میں رابطہ ضرور موجود ہے۔ انکا کہنا یے کہ بلوچ لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان دونوں لمبے عرصے سے افغانستان میں موجود ہیں اور امکان یہی ہے کہ وہاں ان کے رابطے ہوئے ہوں گے جن کا نتیجہ سب سامنے آ رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button