عمران کی گھڑی خریدنے والے کا شہزاد اکبر سے کیا پنگا ہے؟


سعودی شہزادے کی جانب سے عمران خان کو تحفہ دی گئی قیمتی گھڑی خریدنے والے پاکستانی بزنس میں عمر فاروق ظہور اداکارہ صوفیہ مرزا کے سابق شوہر ہیں جن کیساتھ انکی جڑواں بیٹیوں کی تحویل کے لیے چلنے والی عدالتی جنگ کو اب 14 برس ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان کی بچیاں جوان ہو چکی ہیں اور دبئی میں اپنے والد کے ساتھ مقیم ہیں اور ماں سے ملنے سے بھی انکاری ہیں۔صوفیہ مرزا نے اپنے سابق شوہر کیخلاف بچیوں کی تحویل کے لیے پاکستانی عدالت میں کیس کر رکھا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں انکے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کھل کر صوفیہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اور ایف آئی اے کے ذریعے عمر فاروق ظہور کو گرفتار کرانے کی کوشش بھی کی تھی۔ شہزاد اکبر نے یہ کارروائی عمر فاروق ظہور کو فرح گوگی کے ذریعے عمران خان کی گھڑی بکوانے کے بعد کی۔

عمر فاروق ظہور کا کہنا ہے کہ مرزا شہزاد اکبر گھڑی بکوانے کے بعد انہیں اکثر مالی مطالبات ڈالتے رہتے تھے جن سے تنگ آ کر انہوں نے شہزاد اکبر سے دوری اختیار کرلی۔ اس پر موصوف ان سے نالاں ہو گئے اور ان کے خلاف انکی سابقہ اہلیہ صوفیہ مرزا کا ساتھ دیتے ہوئے ایف آئی اے کو استعمال کرنا شروع کر دیا جو بطور مشیر احتساب ان کے دائرہ اختیار میں آتی تھی۔ اس دوران شہزاد اکبر نے انہیں یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پاکستان نہیں بھیجا اور صوفیہ مرزا سے اس کی شرائط پر تنازعہ طے نہ کیا تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

عمر فاروق ظہور کے مطابق شہزاد اکبر نے انکے خلاف باقاعدہ مہم شروع کرتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی جرائم کے تحت جھوٹے مقدمات درج کروانے کے لیے ایف آئی اے کا استعمال کیا۔ بدقسمتی سے میری سب سے بڑی غلطی عمران خان کی مہنگی گھڑی خریدنا تھی کیونکہ مجھے ایک امیر شخص سمجھتے ہوئے مجھے لوٹنے کا آغاز کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی کابینہ سمیت تمام سرکاری اداروں کو استعمال کرتے ہوئے میرے خلاف بھتہ خوری کی مہم شروع کر دی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ریڈ نوٹس کے ذریعے مجھے پاکستان کے حوالے کرنے کی کوشش میں انٹرپول کا غلط استعمال کیا گیا لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ شہزاد اکبر نے کابینہ سے بھی جھوٹ بولا اور صوفیہ مرزا کو خوش کرنے کے لیے میرے خلاف مقدمات درج کرانے کی اجازت لی۔ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل لاہور نے بھی میری سابقہ بیوی کی شکایت پر میرے خلاف تقریباً 16 ارب روپے کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کے جھوٹے الزامات پر انکوائری شروع کر دی جن کا بنیادی مقصد مجھے بلیک میل کرکے پیسے بٹورنا تھا۔ عمر فاروق نے بتایا کہ میرا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا اور میرے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ پھر نیشنل کرائم بیورو کو استعمال کر کے انٹرپول کے ذریعے میرے ریڈ وارنٹ جاری کرائے گئے لیکن چونکہ میرے خلاف الزامات جھوٹ پر مبنی تھے لہذا مجھے گرفتار کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ میں اب سچ اس لیے بول رہا ہوں کہ دنیا جان سکے یہ سب کس قسم کے لوگ ہیں جو پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button