گرین لینڈ کے مقام پر تاریخ میں پہلی مرتبہ بارش

زمین کے ایسے مقام جہاں آج تک (1950 سے جب سے ریکارڈ مرتب کیا جارہا ہے) بارش ریکارڈ نہیں ہوئی تھی وہاں آسمان سے پانی برسنے نے سائنسدانوں کو حیران اور پریشان کردیا۔گرین لینڈ کی سطح سمندر سے 2 میل بلند چوٹی پر موجود وسیع و عریض پٹی پر بارش کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں کا تنیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

اس 3216 میٹر بلنڈ چوٹی پر عموماً درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا ہے مگر حال ہی میں وہاں گرم ہوا کے نتیجے میں شدید بارش ہوئی اور 7 ارب ٹن پانی برفانی پٹی پر برس گیا۔یو ایس نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے موسمیاتی اسٹیشن نے 14 اگست کو اس مقام پر بارش کو برستے دیکھا مگر ان کے پاس جانچ پڑتال کے یے پیمانہ ہی نہیں تھا کیونکہ انہیں اس کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

یہ بارش اس وقت ہوئی جب گرین لینڈ مٰں 3 دن درجہ حرارت اوسط سے 18 سینٹی گریڈ زیادہ رہا اور اس کے نتیجے میں گرین لینڈ کے بیشتر علاقوں میں برف پگھلتے ہوئے دیکھا گیا۔

کولوراڈو یونیورسٹی کے نیشنل اسنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے سائنسدان ٹیڈد اسکمبوز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، ہم نے کچھ ایسا دیکھا وہ ایک شاید صدیوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور حقیقت تو یہ ہے کہ حالات میں تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک ہم وہ سب کچھ ٹھیک نہیں کرلیتے جو ہم نے فضا کے ساتھ کیا۔

گرین لینڈ میں جولائئی میں بھی بڑے پیمانے پر برف پگھلی تھی اور 2021 گزشتہ صدی کا چوتھا سال بن گیا جب اس طرح بڑے پیمانے پر برف پگھلی۔اس سے قبل 1995، 2012 اور 2019 میں ایسا ہوا تھا۔14 سے 16 اگست کے دوران بارش اور برف پگھلنا اس سال کے موسمیاتی اثرات کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔

جولائی اور اگست میں برف پگھلنے کی وجہ ایک ہی ہے یعنی گرم ہوا اس خطے میں اوپر کی جانب پھیلی۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ایسے نہیں جو کبھی نہ ہوئے ہوں مگر ان کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔اگر گرین لینڈ کی تمام برف پگھل جائے تو عالمی سمندری سطح میں 6 میٹر تک اضافہ ہوجائے گا، اگرچہ ایسا ہونے میں صدیاں لگ سکتی ہیں، مگر 1994 سے گرین لینڈ سے کھربوں ٹن پگھل چکی ہے جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

سمندری سطح میں ابھی تک 20 سینٹی میٹر اضافہ ہوچکا ہے اور آئی پی سی سی کے مطاب اس میں مزید 28 سے 100میٹر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button