جوائے لینڈ میں ایسا کیا ہے کہ سینما جلانے کی دھمکی آ گئی؟

آسکر کے لیے نامزد پاکستانی فلم جوائے لینڈ کو سینسر بورڈ کی منظوری مل جانے کے باوجود 18 نومبر کو ریلیز سے چند گھنٹے پہلے وزارت اطلاعات کی جانب سے دوبارہ پابندی کا حکم نامہ جاری ہو گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ قابل اعتراض مواد کی وجہ سے سینیماوں کو جلانے کی دھمکی دے دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اس فلم نے مئی میں دنیا کے سب سے بڑے فلمی میلے ’کانز‘ میں ایک ایوارڈ اپنے نام کیا تھا اور اسے عالمی سطح پر کافی پسند کیا گیا تھا۔ ویسے تو پاکستان میں اسے محض کچھ گنے چنے لوگوں نے دیکھا ہوگا تاہم اسے ریلیز کرنے کی حمایت اور مخالفت دونوں میں ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا پر سرگرم نظر آ رہی ہے۔ اس معاملے میں وزیر اعظم شہباز شریف کو خود حرکت میں آنا پڑا ہے اور انھوں نے فلم جوائے لینڈ کے خلاف شکایات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے جو جائزہ لے گی کہ آیا یہ فلم معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف تو نہیں۔ہدایت کار صائم صادق نے وزارت اطلاعات کے اس ’اچانک یوٹرن‘ کو ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ قرار دیا ہے۔

ادھر وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق فم جوائے لیڈ کے خلاف شکایات موصول ہونے کے بعد وزیر قانون کی نگرانی میں آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں وزیر اطلاعات، وزیر برائے کمیونیکیشن، وزیر سرمایہ کاری، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور گلگت بلتستان سمیت چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔ اس کمیٹی کو 15 نومبر یعنی منگل تک اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ جوائے لینڈ میں خواجہ سرا کے کردار پر اعتراض کرنے والے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے فلم نہیں دیکھی لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ یہ ثقافتی دہشتگردی ہے اور ہماری اقدار، روایات اور فیملی سسٹم، اور شادی اور نکاح کا ادارہ، سب اس سے متصادم ہیں۔ اس سوال پر کہ انھوں نے فلم دیکھی نہیں پھر بھی اس کے بڑے مخالف کیوں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’دیکھیں فلم تو آپ نے بھی نہیں دیکھی، میں نے بھی نہیں دیکھی، کسی نے نہیں دیکھی لیکن لیکن یہ تو طے ہے کہ اس فلم میں ہم جنس پرستی دکھائی گئی ہے جو کچے ذہنوں کو گمراہ کر کے اس ڈگر پر ڈال سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصدقہ ذرائع سے اس فلم کی جو سٹوری میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہے اُس میں ہیرو کا نام حیدر ہے، ہمیں اِس پر بھی اعتراض ہے۔

’ایک تو حیدر کو ہیرو بنایا اور پھر اُس کا ایک ٹرانس وومن کے ساتھ لو افیئر مرکزی نکتہ بنانا سازش کا حصہ لگتا ہے۔ ٹرانس وومن کا نام بیبا ہے۔ کہانی کے مطابق بیبا ایک مرد ہے لیکن وہ اپنی صنف سے مطمئن نہیں ہوتا اور اسے بدل لیتا ہے۔ لہذا یہ اصل میں مرد اور مرد کے لو افیئر کی کہانی ہے اسی لیے یہ ہماری اقدار اور روایات کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہے۔

تاہم فلم کے ٹریلر میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک نوجوان کو ایک ٹرانس خاتون سے محبت ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی روایات کے ٹھیکیدار جماعت اسلامی کے مشتاق احمد کا دعویٰ ہے کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر میں فرق ہوتا ہے۔ اس معاملے پر ان کی تحقیق کے مطابق ٹرانس جینڈر ایک مغربی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ایک ایسا شخص جو بچہ پیدا کرنے کا سسٹم رکھتا ہے، وہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہے لیکن سائیکلوجیکل ڈس آرڈر کی وجہ سے اپنی صنف سے مطمئن نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سینیٹر مشتاق نے پہلے جوائے لینڈ پر سینیٹ کے فلور پر آواز اٹھائی اور پھر فیڈرل شریعت کورٹ سے رابطہ کیا جس کے بعد حکومت نے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز محمد طاہر کا کہنا تھا کہ سینیٹر مشتاق احمد نے یہ مہم شروع کی تھی کہ حکومت کے ٹرانس جینڈر بِل کو سپورٹ کرنے کے لیے یہ فلم بنائی گئی ہے۔ ہمیں بہت سے حلقوں سے اسی طرح کی شکایتیں آئیں کہ آپ ٹرانسجینڈر ایکٹ کو لاگو کرنے کے لیے فلموں کا سہارا لے رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’یہ دھمکیاں آ رہی تھیں کہ جس سنیما میں یہ فلم لگی اُس کو ہم آگ لگا دیں گے۔ پھر کہا گیا کہ ٹرانس جینڈرز کو ماریں گے، تو اس صورتحال میں مجبوراً ہم نے اجازت نامہ واپس لے لیا۔ طاہر نے تسلیم کیا ہے کہ ’فلم میں ایسا کچھ نہیں‘ جس کا دعویٰ سینیٹر مشتاق اور دیگر مذہبی حلقے کر رہے ہیں۔

جوائے لینڈ کے رائٹر اور ڈائریکٹر صائم صادق کا کہنا ہے کہ انھیں سنا ہی نہیں گیاآ بقول ان کے انھیں براہِ راست یہ نوٹیفیکیشن نہیں بھیجا گیا بلکہ انھیں تو سوشل میڈیا سے اس کا پتا چلا۔انھوں نے کہا کہ آئین کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جب ایک دفعہ سینسر بورڈ نے فلم کو پیش کرنے کی اجازت دے دی ہو تو وزارت اچانک نوٹس نہیں دے سکتی۔ اُنھیں ایسا کرنے سے پہلے ایک دفعہ ہمارا مؤقف بھی سننا ہوتا ہے۔ انھیں ہمیں ایک سماعت کا موقع دینا چاہیے تھا جو کہ ہمارا قانونی حق تھا اور منسٹری آف انفارمیشن کی طرف سے ہمیں وہ نہیں دیاگیا۔ صائم کے بقول سینٹرل بورڈ آف فلم سینسر کی قانونی حیثیت صرف فیڈرل اور اُس کی حدود میں آنے والے شہروں تک کی ہے یعنی اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور بلوچستان۔ لیکن انھوں نے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے اختیارات کو بھی بائے پاس کیا اور دباؤ کے حربے کے طور پنجاب اور سندھ سینسر بورڈز کو بھی یہ نوٹس جاری کیا تاکہ وہ بھی یہ فالو کریں۔ ہم نے ہر چیز قانون کے مطابق کی ہے البتہ وزارتِ نے ایک غیر قانونی کام کیا ہے۔

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس پر رائے دی ہے کہ کسی فلم کے خلاف ایسی مہم سے ’کمزور وزیر دباؤ میں آ جاتا ہے‘ اور فیصلہ کرنے والے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں ’جنھیں پتا ہی نہیں ہو گا کہ فلم ہے کیا۔‘ دوسری جانب چیئرمین سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز طاہر کا کہنا ہے کہ ’ٹرانس جینڈرز خطرے میں تھے۔ وہ پہلے ہی اتنی مشکل میں رہتے ہیں تو ہم نے سوچا کہ خدانخواستہ اُن کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔ یہ کام پیشگی حفاظت کے طور پر کیا گیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ٹائمنگ کا بھی مسئلہ ہے۔ یعنی یہ کس وقت پر ریلیز ہو رہی ہے۔ یہی فلم چھ ماہ پہلے یا چھ ماہ بعد آ جاتی تو ایسا نہیں ہوتا۔ رائٹ ٹو بزنس سب کا حق ہے اور ٹرانس جینڈر کا ہم استحصال نہیں کرسکتے۔

خیال رہے کہ پاکستانی ڈائریکٹر، رائٹر و اداکار صائم صادق کی فلم جوائے لینڈ کی کہانی ایک خواجہ سرا کی زندگی پر بنائی گئی ہے جس کو سرمد کھوسٹ اور اپوروا چرن نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس میں لاہور کے محنت کش طبقے کے ایک شادی شدہ مرد اور ایک خواجہ سرا یعنی ٹرانس جینڈر کے درمیان بڑھتے ہوئے رشتے کو دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ثروت گیلانی، ثانیہ سعید، علی جونیجو، ثنا جعفری، علینہ خان سمیت دیگر اداکاروں نے کام کیا۔ اس فلم کو بین الاقوامی شہرت ملی جب اسے آسکرز کے لیے نامزد کیا گیا اور کانز فلم فسیٹیول میں جیوری پرائز ملا۔سوشل میڈیا پر جہاں جوائے لینڈ کی مخالفت ہو رہی ہے وہیں کئی سماجی اور شوبز کی شخصیات کھل کر اس کی حمایت بھی کر رہی ہیں۔

فلمساز جامی آزاد نے حکام سے جوائے لینڈ کو ریلیز کرنے کی درخواست کرتے ہوئِے کہا کہ ’پاکستان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ایک فلم اتنا آگے تک گئی۔ آسکر کی ریس میں بھی کافی اچھی جارہی ہے۔ کانز میں گئی ہے، ٹِف میں گئی۔ ٹرانس لوگ ہماری سوسائٹی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ ہمیں کسی بھی انسان سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ جس طرح مُلا ہماری سوسائٹی کا لازمی حصہ ہیں جو کافی مثبت کردار بھی ادا کرتے ہیں اور کافی منفی کردار بھی ادا کیا مُلاؤں نے۔لیکن ہم برداشت کرتے ہیں۔ ہم نے نہیں کہا کہ اِن کو نکال کے باہر پھینک دیں۔ اُن پر پابندی لگا دیں۔

Related Articles

Back to top button