عمر فاروق کی بیٹیاں صوفیہ مرزا سے کیوں نہیں ملنا چاہتیں؟


دبئی میں اپنے والد اور سابق پاکستانی سفیر شیخ عمر فاروق ظہور کے ساتھ مقیم اداکارہ صوفیہ مرزا کی دونوں جڑواں بیٹیوں نے عدالت میں ایک حلف نامہ جمع کرواتے ہوئے اپنی والدہ کے خلاف سنگین الزامات عائد کردیے ہیں۔ صوفیہ مرزا نے اپنے سابقہ شوہر پر جن بیٹیوں کے اغواء کا کیس درج کروا رکھا ہے انہوں نے اپنی والدہ کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دبئی میں اپنے والد کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزار رہی ہیں اور ان کی والدہ کا یہ الزام من گھڑت ہے کہ انہیں انکی مرضی کے خلاف زبردستی وہاں رکھا گیا ہے۔

15 سالہ جڑواں بہنوں زینب عمر اور زنیرہ عمر نے اپنی 42 سالہ والدہ خوش بخت عرف صوفیہ مرزا کی حالیہ پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ماڈل والدہ سستی شہرت حاصل کرنے اور میڈیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے جھوٹے الزامات لگا رہی ہیں۔ بیٹیوں کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ گزشتہ چند سالوں میں متعدد بار دبئی آئیں۔ ہم نے اس دوران کئی مرتبہ ان سے ملنے کی خواہش بھی کی لیکن انہوں نے ہمیں نظر انداز کر دیا اور ہمیں ملے بغیر اپنے ماڈلنگ شوٹ کر کے واپس چلی گئیں۔ جڑواں بہنوں کا کہنا تھا کہ اب ان کی والدہ ٹی وی پر آکر انکے والد شیخ عمر فاروق کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کر رہی ہیں اور ممتا کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں حالانکہ پچھلے 12 برس سے ان کی ممتا سوئی ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ماں کو ہماری پرواہ نہیں۔ انہیں صرف اپنی تصویروں اور میڈیا پبلسٹی کی فکر رہی ہے۔ زینب عمر اور زنیرہ عمر نے کہا کہ انہوں نے دبئی میں اپنے والد کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا ہے،اور وہ ان کے ساتھ خوشی اور اپنی مرضی سے رہ رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری ماں پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنے والد کا لاکر کھولنے، پاسپورٹ اور پیسے چرانے اور گھر سے بھاگنے کی ترغیب دی جو ان کی خود غرضی تھی۔

دونوں بہنوں نے عدالت کو فراہم کیے گئے ایک تحریری حلف نامے میں اپنی والدہ پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔اپنے مشترکہ حلف نامے میں دونوں جڑواں بہنوں نے کہا کہ وہ دبئی میں اپنے والد کے ساتھ 12 سال سے ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے انہیں ملنے کی کوشش کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹے پروپیگنڈہ کا سہارا لیا جس کا واحد مقصد ان کے والد کو بدنام کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کے اعمال نے انکے ذہنی سکون کو برباد کیا اور انکی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر موجود مواد ہر کسی کیلئے قابل رسائی ہے۔

اپنے حلف نامے میں زینب عمر اور زنیرہ عمر نے لکھا کہ مجھے اور میری بہن کو والدہ کے عائد کردہ جھوٹے الزامات کی وجہ سے اپنے سکول میں انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہماری پریشانی کی وجہ سے ہمارے والد نے تین مرتبہ ہمارے اسکول بدلنے کا انتظام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان حلفی میں لکھا کہ ہم اپنی والدہ کے تمام بے بنیاد الزامات کی نفی کرتی ہیں۔ ہم دبئی میں ایک صحت مند، خوش کن، پرامن اور بامقصد زندگی گزار رہے ہیں اور ہماری تمام ضروریات بشمول رہائش، مطالعہ، کھانا، تفریح ہر طرح پوری ہوتی ہیں۔ ہمارے والد ہمارے ساتھ اکثر وقت گزارتے ہیں اور ہم انکے ساتھ خوشی سے رہتے ہیں۔

عدالتی حلف نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ حال ہی میں ہمیں اپنی والدہ خوش بخت مرزا کی جانب سے عوامی تذلیل کی ایک اور لہر کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ہمارے والد کے وارنٹ جاری کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم اس ذلت سے تنگ آ گئی ہیں جس کا ہمیں اور والد کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے اپنے حلف نامے میں لکھا کہ میں یہ جان کر دل شکستہ ہوں کہ ہماری والدہ، ہمارے صحیح ٹھکانے سے واقف ہونے اور ہمارے رابطہ نمبر اور ایڈریس اپنے پاس موجود ہونے کے باوجود جھوٹ بول رہی ہیں۔

دونوں جڑواں بہنوں نے لکھا ہے کہ وہ حلف نامہ کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں اور نہ تو اپنی والدہ سے ملنا چاہتی ہیں اور نہ ہی انکے ساتھ رہنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ انہیں مزید کوئی پریشانی ہو اور صدمہ پہنچے۔ دونوں بہنوں نے حلف ناموں میں پیشکش کی کہ وہ اپنے حلف نامے کے علاوہ ویڈیو بیانات سکائپ یا کسی اور الیکٹرانک ڈیوائس کے ذریعے ریکارڈ کرانے کیلئے تیار ہیں تاکہ یہ بات یقینی بنائی جا سکے کہ وہ بغیر کسی جبر کے بیانات دے رہی ہیں۔

عدالت میں شیخ عمر فاروق کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ عمر فاروق نے عدالت کو بارہا پیشکش کی ہے کہ وہ صوفیہ مرزا کی زینب اور زنیرہ سے ملاقات کا انتظام کروانے کیلئے تیار ہیں۔ اسکے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مارچ 2013 کے ایک عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے عمر فاروق نے صوفیہ مرزا کو 10 لاکھ روپے کی بھاری رقم بھی ادا کی تھی تا کہ وہ دبئی کا سفر کر کے اپنی بیٹیوں سے مل سکیں۔پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی سپریم کورٹ کی ہدایت پر صوفیہ مرزا کو 15000 درہم بطور مالی امداد دیے تاکہ وہ دبئی میں اپنی مرضی کے وکیل کے ذریعے عدالتوں میں بیٹیوں کی تحویل کا کیس لڑ سکیں۔ لیکن صوفیہ نے کوئی کیس فائل نہیں کیا اور پیسے ہڑپ کر لیے۔

Related Articles

Back to top button