FATF کے مطالبے پر ممبئی حمل ساز کی بڑی گرفتاری اور سزا


ایف اے ٹی ایف کی ایک اعلیٰ سطحی ٹیم کے مجوزہ دورہ پاکستان سے پہلے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے حساس ایجنسیوں کی مدد سے 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث مفرور ملزم ساجد میر کو گرفتار کر لیا ہے جو کہ اس واقعے کے منصوبہ ساز لشکر طیبہ کے چیف آپریشنل کمانڈر ذکی الرحمان لکھوی کا دست راست قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے لشکر طیبہ کے بانی حافظ محمد سعید کو بھی ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر سزا سنائی جا چکی ہے لیکن وہ جیل کی بجائے اپنی رہائش گاہ پر حفاظتی تحویل میں ہیں۔ ذکی الرحمان لکھوی کو بھی بمبئی حملوں کے فوری بعد آزاد کشمیر سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کیا گیا تھا لیکن ضمانت پر رہائی کے بعد حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ممبئی حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے اور اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا گیا تھا۔ واقعے کے فوری بعد زندہ گرفتار ہونے والے لشکر طیبہ کے ایک حملہ آور اجمل قصاب نے اعتراف جرم کیا تھا جسے بعد میں بھارت میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ حملہ آوروں نے کراچی سے ایک بوٹ پر ممبئی کے ساحل تک کا سفر کیا تھا۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والا ساجد میر 2008 سے مفرور تھا اور پاکستان پر اس کی گرفتاری کے لیے سخت دباؤ تھا کیونکہ ممبئی حملوں میں امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کے باشندے مارے گے تھے۔ امریکا کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے ساجد میر کو مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا، اور اسکے سر پر 5 ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔ ملزم ساجد میر کے بارے میں ایک عرصے تک وفات پا جانے کی افواہیں بھی پھیلائی گئیں۔ لیکن پاکستان کو بتایا گیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ساجد میر کو گرفتار کرنا اور سزا دینا ضروری ہے۔چنانچہ ایف ٹی ایف کے حالیہ اجلاس سے پہلے ساجد میر کے خلاف مقدمہ چلا کر سزا سنا دی گئی تھی۔ لیکن اب جبکہ ایف اے ٹی ایف کی ایک اعلیٰ سطحی ٹیم نے اکتوبر میں پاکستان کا دورہ کر کے اسے حتمی طور پر اپنی گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈالنا ہے، پاکستان نے اسکی گرفتاری بھی ظاہر کر دی ہے۔

باخبر حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ‘گرے لسٹ’ سے نکلنے کے لیے ایکشن پلان پر عمل درآمد کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں جس چیز نے ان کے کیس کو مضبوط کیا وہ مقدمات میں مجرم قرار دینا اور کالعدم لشکر طیبہ کے سرکردہ دہشت گرد ساجد مجید میر کو سنائی گئی سزا تھی۔ 2008 کے ممبئی حملوں کی ہدایت دینے والے 44 سالہ ساجد میر کو جون 2022 کے پہلے ہفتے میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے ساڑھے 15 سال قید کی سزا سنائی تھی اور اس پر 4 لاکھ 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا، ذرائع کے مطابق اب گرفتاری کے بعد اسے سزا کاٹنے کے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید کیا گیا ہے۔

یہ سب کچھ اتنی خاموشی سے ہوا کہ اتنے بڑے مقدمے میں عدالتی فیصلے کے بارے میں کسی کو خبر نہیں ہوئی، سوائے ایک اخبار میں چھپنے والی انتہائی مختصر رپورٹ کے اور وہ بھی توجہ مبذول نہ کرسکی اسکی گرفتاری جو بظاہر اپریل کے آخر میں ہوئی تھی، کو بھی میڈیا کی نظروں سے دور رکھا گیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکام نے ماضی میں ساجد کی موت کا دعویٰ کیا تھا لیکن مغربی ممالک اس پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ان کی موت کے ثبوت مانگتے تھے۔ یہ مسئلہ گزشتہ سال کے آخر میں ایکشن پلان پر پاکستان کی پیشر فت کے ایف اے ٹی ایف کے جائزے میں ایک اہم نکتہ بن گیا، یہیں سے ساجد میر کے معاملے میں بالآخر معاملات آگے بڑھنے لگے اور اس کی ’گرفتاری‘ تک پہنچ گئے۔ اسے مجرم قرار دینا اور سزا سنانا اسلیے بڑی کامیابیاں تھیں کہ اسے پاکستانی حکام نے ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے دوران ایکشن پلان پر دی گئی اپنی پیش رفت رپورٹ میں دکھایا۔ س نے واقعی ایف اے ٹی ایف کے ارکان کو یہ بآور کرانے میں مدد دی کہ پاکستان نے تمام مطلوبہ کام مکمل کر لیے ہیں۔

ساجد میر نے مبینہ طور پر ممبئی میں محاصرے کے دوران حملہ آوروں کو لاہور سے ہدایات دی تھیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ساجد میر نے ممبئی میں ریکی کرنے اور اہداف کی تفصیلات اکٹھی کرنے میں 2 سال گزارے، اس نے یہ حملہ امریکی دہشت گرد کولیمن ہیڈلے کی مدد سے کیا جو بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں امریکا میں 35 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے ساتھ ساجد میر کی وابستگی 1994 سے شروع ہوئی، جب وہ محض 16 سال کا تھا جس کے بعد وہ دہشت گرد تنظیم میں ترقی پاتے گیا اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ونگ سے منسلک ہوگیا۔ وہ لشکر طیبہ کے بین الاقوامی آپریشنز کا نائب سربراہ رہا اور اسے ذکی الرحمٰن لکھوی تک براہ راست رسائی حاصل تھی جو دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کا سربراہ تھا۔

ساجد میر کا نام بین الاقوامی دہشت گردی کے منظر نامے پر 2002 کے اوائل میں نمایاں ہونا شروع ہوا، جب اس نے ورجینیا میں مقیم اپنے ساتھیوں کی مدد سے امریکا سے فوجی سازو سامان کی بڑی خریداری کی کوشش کی۔ تاہم یہ منصوبہ اس وقت ختم ہو گیا جب ایف بی آئی نے 11 افراد کو گرفتار کیا جسے ‘ورجینیا پینٹ بال جہادی’ کیس کے نام سے جانا جانے لگا، ان میں سے 10 افراد کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بعد میں ساجد میر نے آسٹریلیا کا رخ کیا اور 2003 میں ایک فرانسیسی شہری، ویلی بریگٹ اور ایک آسٹریلوی فہیم خالد لودھی کی مدد سے افغانستان میں آسٹریلوی فوجیوں کی موجودگی پر آسٹریلیا میں حملوں کی منصوبہ بندی کی۔

خالد لودھی کو جون 2006 میں آسٹریلیا کی ایک عدالت نے دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کا مجرم قرار دیتے ہوئے 20 سال قید کی سزا سنائی تھی جب کہ ویلی بریگٹ جسے 2003 میں فرانس ڈی پورٹ کیا گیا تھا، کو فرانس کی ایک عدالت نے 9 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس کے بعد ساجد نے ممبئی پروجیکٹ پر کام شروع کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچیا۔

Related Articles

Back to top button