پہلی پاکستانی ویب سیریز نے بھارت میں ہلچل مچا دی

پاکستان میں پہلی بار ایک نجی پروڈکشن کمپنی نے ‘دی کنفیشنر نامی ایسی ویب سیریز تیار کی ہے جس میں بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ بھارت میں اس ویب سیریز نے ہر طرف ہلچل مچا دی ہے، ہر کوئی ویب سیریز کے متعلق بات کرتا دکھائی دیتا ہے، کچھ لوگ اس کو بھارت کا اصل چہرہ تو کچھ لوگ اسے پراپیگنڈا قرار دے رہے ہیں، اس ویب سیریز میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے چھپی شدت پسند ہندوؤں اور بھارتی حکومت کی سازشوں کوبے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 

دی کنفیشنز کی پہلی قسط بھی سوشل میڈیا پرشیئر کر دی گئی ہے، ویب سیریز میں بھارت میں 1984 سے 2022 تک ہونیوالے اہم واقعات خاص طور پر بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کا قتل عام، سمجھوتہ ایکسپریس پرحملہ، بابری مسجد کی شہادت، شدت پسند ہندوؤں کا مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، تاج محل سمیت مسلمانوں کی یادگاروں کوتباہ کرنے کی سازشیں اورواقعات کو الگ الگ کہانیوں کی شکل دی گئی ہے۔ اس ویب سیریز کے ذریعے مسلمانوں اورسکھوں کی نسل کشی اوردہشت گردی کے واقعات پر پڑے جھوٹ کے پردے کو اٹھایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھارت میں کس طرح اقلیتوں کا جینا مشکل بنا دیا گیا۔

 

اس ویب سیریز کی اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارت میں ہونیوالے دہشت گردی کے مختلف واقعات کو کس طرح پاکستان، مسلمانوں اور سکھوں سے جوڑنے کی سازش کی گئی ان پہلوؤں کوبھی اُجاگر کیا گیا۔ سچ لکھنے اور دکھانے والے بھارتی صحافیوں کاقتل، میڈیا ہاؤسز پر پابندیاں، اہم سکھ رہنماؤں اور گلوکاروں کا قتل سمیت کئی اہم واقعات اس ویب سیریزمیں اجاگر کئے گئے ہیں۔ اس ویب سیریز کی کہانی سجاد گل نے لکھی ہے اور اس کے ہدایت کار انجم شہزاد ہیں، اداکاروں میں محسن عباس، حاجرہ یامین، نذر الحسن، نیئر اعجاز، عدنان جعفر اور عمارہ ملک شامل ہیں۔ اس ویب سیریزکی پہلی قسط ریلیز ہونے کے بعد بھارت میں اس پر پابندی کے مطالبے سامنے آنے لگے ہیں۔ حالانکہ بھارت درجنوں ایسی فلمیں اورڈرامے تیار کر چکا ہے جن میں دہشت گردی کے واقعات میں پاکستانی اداروں کو ملوث دکھائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔دوسری طرف پاکستان سمیت کینیڈا، امریکا، برطانیہ سمیت دیگرممالک میں موجود پاکستانی خاص طورپر بھارتی نژادسکھ اس ویب سیریز کو پسند کررہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button