عیدالفطر پر پاکستانی فلمیں بزنس کیوں نہیں کر پائیں؟


عیدالفطر کو پاکستانی فلم انڈسٹری کیلئے اہم قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ اس موقع پر ایک یا دو نہیں بلکہ پانچ فلمیں ریلیز کی گئیں لیکن صرف ایک ہالی ووڈ مووی ’’ڈاکٹر سٹرینج‘‘ کی ریلیز نے ساری پاکستانی فلموں پر پانی پھیر دیا، پاکستانی فلم سازوں نے الزام عائد کیا ہے کہ مقامی سینما مالکان پاکستان کی بجائے ہالی ووڈ فلم کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے ان کی فلمیں بزنس نہیں کر پا رہی ہیں۔

رواں سال عید کے موقع پر جب پاکستانی فلموں کی سنیما میں نمائش شروع ہوئی تو چھ مئی کو ہالی ووڈ کی فلم ’ڈاکٹر سٹرینج‘ بھی ریلیز ہو گئی جس پر پاکستانی فلمسازوں نے شکایت کی کہ ان کے شوز کم کر کے ’ڈاکٹر سٹرینج‘ کو دے دیئے گئے ہیں، کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران فلمسازوں کا مؤقف تھا کہ مقامی فلموں کو تحفظ ملنا چاہئے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ڈاکٹر سٹرینج ایک ہفتے بعد ریلیز ہو جاتی تو اس فلم کو شاید فرق نہیں پڑتا۔ دوسری جانب سنیما مالکان کا مؤقف ہے کہ ڈاکٹر سٹرینج کی رمضان سے قبل ہی ایڈوانس بکنگ جاری تھی، اور چند ایک سنیما کے علاوہ کسی نے پہلے سے طے شدہ شوز میں اضافہ یا کمی نہیں کی، کچھ سنیما والوں نے واضح کیا کہ وہ شو صرف اس وقت لگاتے ہیں جب کم از کم 10 افراد فلم کا ٹکٹ خرید لیں، 10 سے کم افراد ہوں تو وہ شو منسوخ کر دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جن سنیماؤں میں پاکستانی فلموں کے شو کم نہیں کیے گئے کیا وہاں یہ فلمیں بہترین چل رہی ہیں، اس سوال کا جواب کافی مشکل ہے۔ 2019 میں کرونا سے قبل عید کے موقع پر سنیما کے ٹکٹ کی قیمت تقریباً 20 فیصد کم تھی اور سنیما سکرینز کی تعداد 160 سے زیادہ تھی۔

پاکستان میں اتنے سینما ہیں نہیں کہ وہ پانچ فلموں کا بوجھ اٹھا سکیں، ملٹی پلیکس میں تو کچھ گنجائش نکل ہی آتی ہے مگر سنگل سکرین سنیما والے کیا کریں؟ وہ پرائم ٹائم پر ایک ہی شو لگا سکتے ہیں چار نہیں۔ اگر پاکستانی فلمسازوں کو ادراک ہوتا کہ عید پر پانچ فلمیں ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کریں گی تو ایسا نہ کرتے اور اس کا نقصان تمام فلموں کو مجموعی طور پر ہوا، سنیما مالکان اور ڈسٹری بیوٹرز کے مطابق اس مرتبہ سنیما میں لوگوں کی آمد 30 سے 40 فیصد کم رہی ہے۔

عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں میں ’’گھبرانا نہیں‘‘ کافی دلچسپ ثابت ہوئی، اس فلم میں ایک بیٹی کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بیٹے سے کم نہیں، اس لحاظ سے یہ فلم اپنی کہانی، پیشکش اور اداکاری کے اعتبار سے مکمل پیکیج ہے، فلم کی کہانی مربوط تھی، مکالمے انتہائی جاندار اور ایک ایک سین کہانی کو آگے بڑھا رہا تھا، فلم میں کہیں بھی بوجھل لمحہ نہیں تھا، اور یہ ایک مکمل فلم ثابت ہوئی۔

دوسری ریلیز ہونے والی ’’فلم پردے میں رہنے دو‘‘ تھی جس کی کہانی ایک شادی شدہ جوڑے کے گرد گھومتی ہے جن کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی اور خاندان اور معاشرہ ان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

تیسری ریلیز ہونے والی فلم دم مستم تھی، اندرون لاہور کے ایک محلے میں جنم لینے والی محبت کی یہ کہانی اپنی پیشکش کے اعتبار سے بہترین ہے، عدنان صدیقی کی بطور پروڈیوسر یہ فلم اپنی پروڈکشن کی وجہ سے دیگر تمام فلموں سے الگ نظر آتی ہے، اس فلم کے گانے بہت ہی بہترین ہیں، خاص کر ’لڑکی اچاری‘ تو عوام میں کافی مقبول ہوا اور یہ تمام کے تمام گانے فلمائے بھی بہت بہترین انداز میں گئے ہیں۔

عیدالفطر پر ریلیز ہونیوالی چوتھی فلم ’’چکر‘‘ میں انفرادی طور پر ہانیہ عامر، علی رحمان نے اچھی اداکاری دکھائی، لیکن بطور ایک فلمی جوڑی ان میں وہ کیمسٹری نہیں تھی جس کی امید تھی، ہانیہ نے کئی مواقعوں پر خود کو اچھی اداکارہ ثابت کیا لیکن فلم میں جاوید شیخ کا کردار سب پر بھاری رہا، طویل عرصے بعد کسی پاکستانی فلم کے اتنے بہترین سیٹ لگائے گئے تھے جو سنیما سکرین پر بہت ہی بہترین نظر آئے۔

Related Articles

Back to top button