پی ٹی آئی کی آرمی چیف مخالف مہم کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

 وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور بیرون ملک مظاہروں کو ایک منظم ‘مہم’ نا قابل برداشت قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

شہباز شریف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز سے سوشل میڈیا پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف پوسٹس کا سلسلہ جاری ہے وہیں لندن میں میں بھی اُن کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔مظاہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ آرمی چیف حکومتی جماعت کی حمایت جب کہ تحریک انصاف کی مخالفت کر رہے ہیں۔پاکستان تحریکِ انصاف کے لندن میں ہونے والے مظاہرے کے دوران آرمی چیف کی تصاویر کے ساتھ مختلف پوسٹرز بھی سامنے آئے ہیں جن پر لکھا گیا تھا کہ انہیں مبینہ طور پر مدتِ ملازمت مکمل ہونے کے تین دن بعد آرمی چیف بنایا گیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر اپنے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اتحادی حکومت کی سہولتکاری کا الزام عائد کر چکے ہیں۔ تاہم دوسری جانب شہباز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وزیرِاعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اداروں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شہباز شریف کے ان الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج غیرسیاسی ہونے کا کہہ رہی ہے لیکن ان کے بعض ادارے ابھی بھی سیاست میں شامل ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ہو گی اور انہیں براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرنا چاہیے۔حالیہ پیشرفت بارے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ انتہائی افسوس ناک صورتِ حال ہے کیونکہ پاکستان کی فوج مختلف چیلنجز سے گزر رہی ہے۔ اس کو ففتھ جنریشن وار فیئر کا سامنا ہے۔ ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے فوج کے خلاف ایسی مہم چلنا انتہائی افسوس ناک ہے۔”

بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ "پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا نام لے کر انہیں اشتعال دلایا جائے اور ان پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ کریں جس سے انہیں فائدہ ہو۔ لیکن فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سیاست میں نہیں آئیں گے۔ لہٰذا اگر انہیں کوئی مسئلہ ہے تو انہیں عدالتوں میں جانا چاہیے۔”ان کے بقول اس وقت عمران خان کے خلاف جو کیسز بن رہے ہیں وہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی طرف سے ہیں اور وہ اپنا اسکور برابرکر رہے ہیں۔ لیکن اس کے جواب میں پاکستانی فوج اور اس کے سربراہ کو سیاست میں گھسیٹناسب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

تاہم تجزیہ کار عائشہ صدیقہ ان سب سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ(ن) نے انہیں تین دن کی توسیع دی تھی اور عمران خان کو یقین ہے کہ وہ ان کے خلاف ہیں۔عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ رولز کو تبدیل کر کے آرمی چیف بنایا گیا ہے اور اس وجہ سے تنازع تو بنے گا۔ ان کی تعیناتی کے وقت یہ تنازع شروع ہوا اور اس وقت یہ معاملہ سیاسی ہوگیا ہے۔ان کے بقول "عمران خان کا ماننا ہے کہ ان کے مدِ مقابل صرف نواز شریف نہیں ہیں بلکہ وہ فوج کو بھی اپنا مخالف سمجھ رہے ہیں۔”

عائشہ صدیقہ نے سوال اٹھایا کہ وزیرِاعظم نے جو بیان دیا کہ پہلا آرمی چیف ہے جو میرٹ پر لگا، اس کا مطلب ہے ان کے بھائی نواز شریف نے جو آرمی چیف لگائے وہ میرٹ پر نہیں تھے کیا؟حکومت خود ایسے بیانات دے کر اس معاملے کو مزید متنازع بنا رہی ہے۔ عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات اور جاری آرمی چیف مخالف مہم سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ فوج ایسی باتوں کا کوئی دباؤ نہیں لے گی۔ عمران خان خود اس معاملے پر اسٹینڈ لیے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ ساری گیم کو سمجھتے ہیں۔ان کے بقول "میری نظر میں فوج اور اس کا چیف خود سیاسی ہو رہے ہیں۔ صرف بیان دینے سے آپ غیر سیاسی نہیں ہوجاتے۔ آپ پہلے ہی سیاست کا حصہ ہیں اور دونوں فریق سیاست کر رہے ہیں۔”انہوں نے کہا کہ فوج کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح عمران خان کو قابو کیا جائے اور عمران خان کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سیاست میں عوامی طاقت کے زور پر ان کے قابو میں نہ آئیں۔ان کے بقول سیاسی حکومتیں ہمیشہ سیاسی ہوتی ہیں۔ اگر وہ زیادہ تشدد کریں گی تو انہیں عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف جو کر رہی ہے اس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ان کی سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے خلاف مہم پہلے ہی چل رہی ہے اور اب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بھی مہم چل پڑی ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمانوں نے اگرچہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہےلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لندن میں جن افراد نے یہ مظاہرے کیے وہ بہت جانے پہچانے پی ٹی آئی کے ہمدرد ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت غلط ٹرینڈ ہے۔ کوئی بھی شخصیت غیر متنازع نہیں رہی اور اداروں کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے جس سے پی ٹی آئی کو از خود نقصان ہوگا۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ فوج مکمل طور پر ‘اے پولیٹکل’ یعنی غیر سیاسی نہیں ہوئی ہے لیکن بظاہر فوج کچھ کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ان کے انٹیلی جنس ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہوں گےلیکن جنرل ہیڈ کوارٹرز یعنی جی ایچ کیو براہ راست کسی معاملے میں نظر نہیں آرہا۔ حکومت آزادانہ طور پر چل رہی ہے اور ماضی میں جس طرح جی ایچ کیو براہ راست ملوث ہوتا تھا اس طرح سے نظر نہیں آرہا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کھلے عام کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے جان چھڑوائے اور انتخابات میں ان کی مدد کرے اور انہیں دوبارہ اقتدار میں لے کر آئے۔عمران خان یہ مطالبات کھلے عام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا اور ملاقات کی کوشش کےجواب میں کوئی ردِعمل نہیں دیا جا رہا۔انہوں نے کہا کہ فوج کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور پی ٹی آئی اس معاملے پر خاصی پریشان نظر آ رہی ہے۔ لیکن اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو فوج کی طرف سے جواب بھی آ سکتا ہے۔ان کے بقول اس سے قبل بھی ڈی جی آئی ایس آئی اس بارے میں پریس کانفرنس کرچکے ہیں اور اگر ان پر الزامات کا سلسلہ جاری رہا تو پھر فوج بھی جواب دینے کو آگے آئے گی۔

سینئر صحافی اور اینکرپرسن صابر شاکر کہتے ہیں کہ اس وقت ایک حکمت عملی بنائی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان لڑائی کو پی ٹی آئی اور فوج کی لڑائی بنا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو پوسٹرز سامنے آئے ہیں ان کے خیال میں وہ پی ٹی آئی قیادت کے کہنے پر نہیں ہوں گے کیوں کہ ان پوسٹرز کے ذریعے ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جنرل عاصم منیر غیر قانونی آر می چیف ہیں جب کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایسا کوئی بیانیہ کبھی سامنے نہیں آیا۔انہوں نے کہا کہ جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کا معاملہ آیا تھا تو اس روز بھی صدر عارف علوی کی عمران خان سے ملاقات کے بعد یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ عمران خان نے عارف علوی کو سمری پر دستخط سے روکا ہے۔ لیکن درحقیقت عمران خان نےعارف علوی کو فوری دستخط کرکے سمری منظور کرنے کا کہا تھا۔ اس طرح نئے آنے والے آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان اختلافات پہلے دن سے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

صابر شاکر کا کہنا تھا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ حکومت کی طرف سے انتخابات کو مؤخر کرنے سمیت پی ڈی ایم کے مبینہ غیرآئینی اقدامات میں حکومت کا ساتھ دے۔لیکن حکومت کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جیسے ماضی میں جنرل باجوہ حکومت کا ہر معاملے میں ساتھ دیتے رہے ویسے ہی ان کا ساتھ بھی دیا جائے۔البتہ ان کے خیال میں جنرل عاصم منیر کبھی بھی اس حد تک نہیں جائیں گے۔

ان کے بقول مسلم لیگ (ن) کے وزرا اپنے بیانات میں بار بار کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری کو کون روک رہا ہے۔ کبھی وہ عدلیہ تو کبھی اسٹیبلشمنٹ پر الزام عائد کرتے ہیں۔ یہ ایک کھیل ہے جس میں مسلم لیگ(ن) ایسا کررہی ہے، عمران خان کو یہ صورتِ حال نقصان پہنچا رہی ہے۔ لہٰذا پی ڈی ایم کی حکومت اس معاملے کو زیادہ ہوا دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم کا بیان بھی اسی تناظر میں ہے۔ حالانکہ آرمی چیف کے خلاف مہم کی پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت نے حمایت نہیں کی لیکن وزیرِاعظم نے اس کا تمام الزام پی ٹی آئی اور عمران خان پر عائد کردیا۔

صابر شاکر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے یہ نہیں کہا کہ وہ آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی تھی جب بزنس مین عاصم منیر سے ملے تو اس وقت جان بوجھ کر یہ پیغام پھیلایا گیا کہ عمران خان کو شہباز شریف اور سیاست دانوں سے ملنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کبھی بھی سامنے آکر ملاقاتیں نہیں کریں گے۔ ماضی میں جنرل باجوہ کی جو پالیسیاں تھیں وہ ان سے دور رہنا چاہتے ہیں لہٰذا وہ نہ تو حکومت گرانے میں عمران خان کی مدد کریں گے اور نہ ہی حکومت بچانے میں شہباز شریف اور اتحادیوں کی مدد کریں گے۔ وہ ان سب معاملات سے دور رہنا چاہتے ہیں اور دور رہیں گے۔

پنجاب اور کے پی کی نگران حکومتیں اور کتنی دیر رہیں گی؟

Related Articles

Back to top button