ایم کیو ایم سے حکومتی وفد کل ملاقات کرے گا

ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وزارت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کو منانے کی کوششوں کا آغاز کردیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کیوفاقی حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے فوراً بعد وزیر اعظم عمران خان نے اہم رہنماؤں اسد عمر، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کو ہدایات دی ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر اسد عمر کی قیادت میں وفد ایم کیو ایم قیادت سے کل ملاقات کرے گا۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ ٹیلی فونک گفتگو میں ایم کیو ایم قیادت کی جانب سے کہا گیا کہ صرف اور صرف وعدے کئے جارہے ہیں، کراچی کو ایک روپیہ نہیں دیا گیا، وعدوں کے باوجود کراچی کے مئیر کو ترقیاتی کاموں کی مد میں 25 ارب روپے نہیں دئیے گئے،حیدر آباد کے مئیر کو 5 ارب روپے کی ادائیگی کرنی تھی جو نہ ہوسکی، پارٹی پر عوام کا بہت دباؤ ہے، اب ایم کیو ایم کو وفاق میں وزارتیں نہیں چاہئیں، اب وزارتیں نہیں عوامی مسائل حل کئے جائیں۔
اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ٹیلی فون پر بات کی ہے، وزیراعظم نے کہا کہ ایم کیوایم کے مطالبات جائز ہیں، حکومت کیے گئے تمام وعدے وفا کرے گی، سندھ کی مقامی قیادت ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملاقات کرے۔
جس کے بعد گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں خواجہ اظہار الحسن اور فیصل سبزواری سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں گلے شکوے دور کرنے کی یقین دہانی کرائی، گورنر سندھ نے کہا کہ ایم کیو ایم ہماری اتحادی ہے، ایم کیو ایم سے کئے گئے تحریری معاہدے پر مکمل عمل در آمد کیا جائے گا، بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے، جلد کراچی کو فنڈ جاری کئے جائیں گے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کی جانب سے پہلےرابطہ نہ کرنے کا گلہ کیا گیا۔
وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہےکہ خالد مقبول صدیقی حکومت سے الگ نہیں ہو رہے، وہ صرف وزارت چھوڑ رہے ہیں اور کابینہ سے علیحدگی ایم کیو ایم پاکستان کا نہیں، خالد مقبول صدیقی کا اپنا فیصلہ ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ پیر کے روز ہماری ایم کیو ایم کے ساتھ کراچی ٹرانسمیشن کمیٹی میں بات چیت طے ہے، وزیراعظم سے میری بات نہیں ہوئی مگر انہیں معلوم ہے کل ہم کراچی کمیٹی میں بیٹھ رہے ہیں خالد مقبول صدیقی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اب وفاقی حکومت پر منحصر ہے وہ کیا کرتی ہے، کمیٹی میں بیٹھیں گے تو دیکھیں گے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button