ایپس پر پابندی:’ہمیں پتھر کے زمانے میں مت دھکیلیں’

پاکستان میں جب سے پب جی پر پابندی اور ٹک ٹاک کو’ قابل اعتراض مواد’ کی وجہ سے نوٹس جاری ہوا ہے سوشل میڈیا پر ان موبائل ایپلی کیشنز کی حمایت اور مخالفت میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔
اور اب جب سپریم کورٹ نے یوٹیوب کو بند کرنے کا عندیہ دیا تو اس بحث نے مزید زور پکڑ لیا ہے۔
اس وقت ٹوئٹر پر YoutubeBanInPakistan# اور YoutubeIsMyTeacher# کے ہیش ٹیگ کے ساتھ صارفین موبائل ایپلی کیشنز پر پابندی کے حوالے سے تبصرے کر رہے ہیں۔
کچھ صارفین کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہی ہے پاکستان میں ان ایپلی کیشنز پر پابندی سے ترقی کا راستہ روکا جا رہا ہے۔
دوسری جانب کچھ سوشل میڈیا صارفین ان ایپس کو ‘وقت کا ضیاع’ اور ‘غیر اخلاقی مواد’ کی تشہیر کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ٹوئٹر صارف ماہم خان نے لکھا کہ ‘یوٹیوب پر بین کیوں لگایا جا رہا ہے؟ بہت سے ایسے طلبہ ہیں جو یوٹیوب ویڈیوز سے سیکھتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اور یہاں یوٹیوب پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔’
ٹوئٹر صارف مزمل عمار نے لکھا کہ ‘تعمیری ایپس پر پابندی لگانا بند کریں، پاکستان کو پیچھے کی طرف دھکیلنا بند کریں، نوجوانوں اور سیکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کریں۔’

ایک اور صارف مریم احسان نے لکھا کہ ‘یوٹیوب ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ہے چاہے آپ ایک طالب علم ہیں یا بلاگر۔ بہت سے لوگ یوٹیوب ویڈیوز سے پیسے کما رہے ہیں۔ حکومت کو یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر موجود نامناسب ویڈیوز پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔’
ایک اور صارف سید ماجد علی شاہ نے لکھا کہ ‘براہ مہربانی یوٹیوب بند نہ کریں۔ یوٹیوب بہت سے لوگوں کے لیے سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کسی مواد سے مسئلہ ہے تو براہ مہربانی اسے ہٹا دیں لیکن پورے پلیٹ فورم کو مت ختم کریں۔ یوٹیوب ہمارے لیے اہم ہے اور اس پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے۔’
بلو سپیکس کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا کہ ‘وزیراعظم عمران خان تو ڈیجیٹل پاکستان کا عزم رکھتے تھے تو پھر اس ساری گیم کے پیچھے کون ہے؟ کون آزادی اظہار رائے سے خوفزدہ ہے؟ کون الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا کو بھی قابو کرنا چاہتا ہے؟’
ٹوئٹر صارف سبز علی خان نے لکھا کہ ‘یوٹیوب جو جدید دور میں تعلیم اور معلومات کا اصل ذریعہ ہے اس پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟ ہمیں پتھر کے زمانے میں واپس مت دھکیلیں۔’
ذیشان رمضان نے لکھا کہ ‘اگر لائبریری میں دو برے مواد پر مبنی کتابیں ہوں تو انہیں نکال دینا چاہیے لیکن پوری لائبریری نہیں جلانی چاہیے۔’

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button