امریکہ کے ساتھ چلنا ہے یا چین کے: پاکستان مشکل میں


بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان اس مخمصے کا شکار ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ چلے یا چین کے ساتھ چونکہ ایک ہی وقت میں ان دونوں متحارب ممالک کے ساتھ دوستی کا رشتہ برقرار رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔ عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان ميں عدم استحکام پاکستان میں امریکی و چینی مفادات کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ بظاہر پاکستان کی نگاہیں چین کی جانب ہیں کیونکہ بیجنگ سے مختلف تعمیراتی پراجیکٹس کی مد ميں اربوں ڈالر ملنے کی امید ہے۔ تاہم یہ اربوں ڈالرز قرضے کی صورت میں ہونگے جو کہ پاکستان کو سود سمیت واپس کرنا ہوں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات تب سے تناؤ کا شکار ہیں جب اگست 2022 ميں طالبان نے افغانستان ميں اپنی حکومتی عمل داری قائم کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکا مسلسل پاکستان پر تنقید کر رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کا حامی ہے۔ جب سے امریکی صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوئے ہیں، تب سے انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رابطہ بھی نہیں کیا۔ اس مناسبت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اب اپنی نگاہوں کا رخ موڑ کر بیجنگ کی جانب کر لیا ہے۔ اس کا ایک مقصد امریکہ کو دھمکا کر اپنی طرف راغب کرنا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اب امریکہ کو پاکستان کی کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی۔
پاکستان حکومت کا اصرار ہے کہ وہ امریکا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ رواں برس جون میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ امریکا اور مغربی ممالک کا پاکستان پر دباؤ غیر منصفانہ ہے کہ وہ اپنے چین کے ساتھ تعلقات کو محدود کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک چینی تعلقات کی ہیت میں، جتنا بھی دباؤ ڈالا جائے، فرق نہیں پڑے گا اور ویسے بھی پاکستان کے سبھی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ امریکا بارہا پاکستان کے چین پر مسلسل بڑھتے اقتصادی انحصار کو ہدفِ تنقید بنا چکا ہے۔ اس تناظر میں ‘چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘ یا سی پیک میں بیجنگ حکومت نے ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عملی وعدے کر رکھے ہیں۔ سی پیک چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹوو‘ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ گزشتہ برس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سابق نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے سی پیک کے تحت ہاکستان کو فراہم کردہ چینی قرضوں کو ناقابلِ برداشت اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ پاکستان نے ان تنقیدی کلمات کو مسترد کر دیا تھا۔ ایلس ویلز کے بیان پر پاکستان میں چینی سفارت خانے نے کہا تھا کہ امریکا سی پیک کے حوالے سے خبط کا شکار ہے۔ اس صورت حال میں ایک پیش رفت یہ بھی ہے کہ افغانستان میں پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے افغانستان کی نئی قیادت سے گزشتہ ماہ ملاقات کر کے انہیں سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔
دوسری جانب اس وقت پاکستان کی داخلی سلامتی کی کمزور ہوتی صورت حال نے چینی سرمایہ کاری کے عمل کو سست کر دیا ہے اور بیجنگ اسلام آباد کے دو طرفہ تعلقات میں بھی گرم جوشی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں مختلف سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے جینی انجینئرز پر دہشت گرد حملوں کے بعد سے چین نے کام تقریبا روک رکھا ہے اس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان چینی باشندوں کے لیے سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر کرہے۔
تاہم امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیائی امور کے تجزیہ کار شجاع نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور صرف ایک کی جانب جھکاؤ مناسب نہیں ہے۔ نواز کے مطابق چین پاکستان کا ایک ہمسایہ اور دوست ملک ہے جب کہ امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات تاریخی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کے تناظر میں امریکا کے ساتھ تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرنا چاہیے اور اسے نہ تو امریکا پر انحصار کرنا چاہیے نہ ہی اپنے معاملات کے حوالے سے امریکا کو فریب دینا مناسب ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور طالبان کی مسلسل حمایت جاری رکھنے پر بھی اسلام آباد کے بارے میں امریکی حکومت میں مایوسی پیدا ہو چکی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی تمام تر خواہش کے باوجود امریکی صدر بائیڈن موجودہ پاکستانی پالیسیوں سے نالاں ہو کر وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ استوار کرنے پر آمادہ نہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ زبردستی ایک ملک کسی دوسرے ملک سے تعلقات نہیں بنا سکتا۔
دوسری جانب شجاع نواز کا کہنا ہے کہ چین کسی بھی طرح پاکستان کے لیے امریکہ کا متبادل نہیں بن سکتا۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی امداد ختم کر کے امریکا نے اسلام آباد پر اپنا اثر و رسوخ بھی محدود کر لیا ہے۔ لہذا امریکہ اور پاکستان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرکے اپنے تعلقات میں بہتری پیدا کرنا ہوگی۔

Related Articles

Back to top button