بھارتی گلوکاروں کی اموات پر پاکستان میں بھی سوگ

انڈیا کے دو معروف گلوکاروں سدھو موسے والا اور کرشنا کمار کی بے وقت اموات پر بھارتیوں کیساتھ پاکستانیوں کے دل بھی غمگین ہیں اور دونوں کے اچانک دنیا سے چلے جانے پر اظہار افسوس کیا جا رہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موسیقی کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔
سدھو موسے والا کو 29 مئی کو انڈیا کی ریاست پنجاب میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ 30 مئی کو معروف بھارتی گلوکار کرشنا کمار عرف کے کے ایک لائیو میوزک شو کرنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے کولکتہ میں انتقال کر گے تھے۔ کے کے ایک ایونٹ میں گانے کے بعد ہوٹل میں بے ہوش ہو گئے تھے، جہاں سے انھیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا، انکہ موت کی وجہ دل کا دورہ بتائی جا رہی ہے لیکن ابھی تک سرکاری طور پر ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ لیکن

عمران خان کے لانگ مارچ کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟

سدھو موسے والا اور کرشنا کمار دونوں پاکستان میں کافی مقبول تھے اور ان کے یہاں لاکھوں پرستار ہیں۔
شوبز کی دنیا کور کرنے والے معروف بھارتی صحافی ادے رانا نے سدھو اور کرشنا کی اموات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کی موسیقی کی مشترکہ تاریخ کی یاد دہانی کروائی۔ انکا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے لوگ سدھو اور کرشنا کیلئے غمگین ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کی بات کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارف صبا اعتزاز نے اسے رانا کو جواب دیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری تاریخ مشترکہ ہے، پاکستانی مداح دونوں گلوکاروں کی موت کی خبر پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، سدھو اور ’’کے کے‘‘کیلئے بھی مداحوں نے محبت کا پر زور اظہار کیا ہے۔
’کرشنا کمار عرف ’کےکے‘‘ کی اچانک موت پر تبصرہ کرتے ہوئے گلوکار عاطف اسلم کا کہنا تھا کہ یہ ایک دور کا خاتمہ ہے، جن لوگوں نے ہمارے بچپن کو خوبصورت بنایا، وہ اب نہیں رہے، لیکن ہم آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے، انہوں نے لکھا کہ پاکستان میں آپ دونوں کے لیے محبت اور احترام موجود ہے۔ سدھو اور کرشنا کی اموات پر معروف گلوکار جواد احمد نے کہا کہ کہ ‘کرشنا کمار کو سرحد کے دونوں طرف لوگ پیار کرتے تھے، پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر ان کے مداح تھے، ان کی اچانک موت ہم سب کے لیے حیران کن ہے۔
یاد رہے کہ کرشنا کمار 1968 میں دہلی میں پیدا ہوئے التھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایڈورٹائزنگ جِنگلز گا کر کیا، فلمی موسیقی میں مواقع ملنے سے پہلے تقریباً 3500 جِنگلرز گائے، اس کے بعد گلوکار نے تامل، تیلگو اور کنڑ سمیت متعدد انڈین زبانوں میں گایا لیکن ہندی میوزک انڈسٹری میں ان کی آواز سرحد کے دونوں طرف مقبول ہوئی۔ سدھو کی موت پر پاکستان میں لوگوں نے انہیں یاد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ جلد پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے، حمزہ اظہر سلام نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ‘سدھو موسے والا نے اس سال پاکستان آنے کا وعدہ کیا تھا، پہلا کنسرٹ لاہور اور دوسرا اسلام آباد میں، مزید لکھا کہ فن تمام حدوں کو عبور کرتا ہے اور آج پاکستانی سدھو موسے والا کی موت پر اپنے ہندوستانی بھائیوں اور بہنوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
ایک اور صارف زارا بانو نے لکھا کہ میں کل ہی اپنے دوستوں کو بتا رہی تھی کہ اگر سدھو موسے والا پاکستان آئے تو میں ان کے کنسرٹ میں جاؤں گی چاہے کچھ بھی ہو اور آج وہ نہیں رہے۔ موسے والا پنجابی زبان میں گاتے تھے لیکن ان کے گانوں کا ٹائٹل ہمیشہ انگریزی میں ہوتا تھا، ان کے آخری گانے کا نام تھا ‘لاسٹ رائیڈ’، جس میں بظاہر امریکی ریپر ٹوپاک کو خراج تحسین پیش کیا تھا جنھیں خود 1996 میں 25 سال کی عمر میں ان کی کار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ صارف بھٹناگر نے گلوکار کی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں چسپاں ایک تصویر شیئر کی، سید ارشد علی نے لکھا کہ ‘انھیں سدھو کی یاد آئے گی، پاکستان میں آپ کے مداح کی طرف سے پیار۔
دیدار کریم نے ’’کے کے‘‘ کا مقبول گانا ’’بیتے لمحے‘‘ کا ایک کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ’’کے کے‘‘ کے سب سے خوبصورت گانوں میں سے ایک ہے، لیجنڈ! یہ آواز پاکستان اور ہندوستان میں آنے والی دہائیوں تک بلند رہے گی، آج بھی جب وہ پل مجھ کو یاد آتے ہیں، دل سے سارے غموں کو بھلا جاتے ہیں، درد میں بھی یہ لب مسکرا جاتے ہیں، بیتے لمحے ہمیں جب بھی یاد آتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button