’’بارڈر‘‘ کو بھارتی وار فلموں میں پہلا نمبر کیوں دیا گیا؟

جن

گوں پر بننے والی بھارتی رزمیہ فلموں کی بات کی جائے تو ہدایت کار جے پی دتہ کی فلم ’’بارڈر‘‘ اس کیٹیگری میں صف اول کی فلموں میں شمار ہوتی ہے

تاریخی اقدام، اسلام آباد ہائیکورٹ کی لائیو سٹریمنگ کا فیصلہ

. اس فلم کی کہانی 120 بھارتی فوجیوں اور پاکستانی ٹینک رجمنٹ کے گرد گھومتی ہے جو پاک بھارت جنگ میں آمنے سامنے تھے ۔
1997 میں پروڈیوسر ڈائریکٹر جے پی دتہ نے فلم ’بارڈر‘ بنائی تھی، اس فلم میں جنگ، قوم پرستی، حب الوطنی یہ سب نکات تھے، جو بعد میں شیرشاہ، اوڑی دی سرجیکل اسٹرائیک، کیسری جیسی فلموں میں مختلف انداز میں نظر آئے، اس لحاظ سے ’بارڈر‘ کو رجحان ساز سمجھا جاتا ہے، اس سال فلم نے اپنے 25 سال مکمل کر لیے ہیں۔
فلم بارڈر جے پی دتہ کے دل کے بہت قریب رہی ہے کیونکہ یہ ان کے بھائی سکواڈرن لیڈر دیپک دت کے تجربات کے گرد بنی تھی، جو انڈین فضائیہ میں تھے، جے پی دتہ نے اس فلم کو 1971 کی جنگ سے جوڑ کر بنایا تھا۔اس فلم میں سنی دیول نے جو فوجی افسر کا کردار ادا کیا تھا وہ بریگیڈیئر چاند پوری تھے، جنہیں پاک انڈیا جنگ میں لونگوالا جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور انہیں مہا ویر چکر اور وششٹ سیوا میڈل سے نوازا گیا تھا، فلم بارڈر میں فوج یا فضائیہ کے بارے میں جو بھی مناظر دکھائے گئے، وہ سب حکومت کی طرف سے کلیئر کر دیئے گئے۔
بریگیڈیئر چاند پوری نے پاکستان انڈیا جنگ کے بارے میں بتایا کہ ’لڑائی 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوئی، اس میں تقریباً 60 پاکستانی ٹینک تین ہزار فوجیوں کے ساتھ آئے۔ آدھی رات کے قریب لونگے والا کا محاصرہ کیا باقی فوج کا سب سے قریبی سپاہی مجھ سے 17-18 کلومیٹر دور تھا جب ہم گھرے ہوئے تھے تو میری کمپنی پنجاب رجمنٹ کی طرف سے حکم آیا کہ لونگے والا ایک اہم پوسٹ ہے۔ آخری آدمی تک لڑنا پڑے گا، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یہیں لڑیں گے۔
فلم کی کامیابی میں اس کی موسیقی نے بڑا کردار ادا کیا، اونچی ہے بلڈنگ جیسے گانے والے انو ملک نے اس فلم میں بالکل مختلف قسم کا میوزک دیا۔ جاوید اختر نے ہر گانے میں اس لمحے کی روح کو اپنے الفاظ سے سمیٹ لیا تھا،جب آپ فلم کا گانا ’سندیسے آتے ہیں‘سنتے ہیں تو ہر سپاہی کا ایک الگ چہرہ ہوتا ہے، ایک الگ جذبہ ہوتا ہے جو جنگ سے باہر نکلتا ہے، یہ گانا ایک دوست، بیٹے، عاشق، ایک کے جذبات کو باندھ کر ایک خط میں بُنا گیا ہے۔
بریگیڈیئر چاند پوری نے بی بی سی کو بتایا کہ موت ہمیں یقینی طور پر نظر آ رہی تھی، جب 40-50 ٹینک آپ کو گھیر لیتے ہیں اور ہر ٹینک کے پاس مشین گنیں ہوتی ہیں اور اسے دو کلومیٹر تک مارتے ہیں، تو اس دائرے سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے،دونوں حریف ملکوں کے درمیان جنگ کے موضوع پر بنی اس فلم پر پاکستان میں حسب توقع رد عمل آیا، پاکستان مخالف مواد پر یہاں پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور یہی کچھ اس فلم کے ساتھ بھی ہوا۔ چونکہ اس فلم کے گانے بہت زیادہ پسند کیے گئے اس لیے پاکستانی شائقین نے اس کے گانوں کی آڈیو کیسٹس بڑی تعداد میں خریدیں۔
پاکستانی فلم بین اگرچہ فلم کے موضوع پر نالاں تھے لیکن اس کے لوازمات کو بھی سراہ رہے تھے ’لوگ کہانی، اداکاروں اور گانوں کی تعریف تو کرتے لیکن پاکستان مخالف ہونے پر بُرا بھلا بھی کہتے، ان کا کہنا تھا کہ ایسا شاید اس لیے تھا کہ جو حالات اور جذبات اس میں فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے دکھائے گئے تھے وہ لگ بھگ پاکستانی فوجیوں کے بھی تھے، جنگ پر بننے والی فلموں کی بات کریں تو اس سے قبل چیتن آنند نے 1962 کی ہند چین جنگ پر فلم حقیقت بنائی تھی جس میں لداخ میں تعینات انڈین فوجیوں کا ایک چھوٹا دستہ اور سامنے ایک طاقتور فوج ہے۔
بارڈر نے ایک مختلف قسم کا جنگی سانچہ قائم کیا، ایکشن، میلو ڈرامہ، بھاری مکالمے، حب الوطنی اور اسے آج کی فلموں میں کئی گنا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن ’بارڈر‘ جیسی کامیابی بہت کم فلموں کو ملی، جے پی دتہ کی اپنی فلم ایل او سی کارگل، ٹینگو چارلی، مشن کشمیر، لکشیا، کیسری ایک لمبی فہرست ہے تاہم، گذشتہ سال کا شیر شاہ اور اوڑی، دی سرجیکل اٹیک کامیاب رہیں۔

Related Articles

Back to top button