پاکستان کا IMF سے معاہدہ کیوں نہیں ہو پا رہا؟


انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور پاکستانی حکام کے مابین ڈیڈ لاک کی وجہ سے معاہدے میں ہونے والی مسلسل تاخیر نہ صرف پاکستانی روپے کو تاریخ کی کم ترین سطح پر لے گئی ہے بلکہ سٹاک مارکیٹ بھی تیزی سے ڈوبتی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کے مستقبل پر غیر یقینی صورتحال سے سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ہے جو ملکی معیشت کی صورتحال مزید بگاڑ رہا ہے۔
معروف بین الاقوامی اخبار بلوم برگ کے مطابق واشنگٹن کے اشاروں پر چلنے والے آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ قرض کی فراہمی کا معاہدہ اپریل 2021 میں طے ہونا تھا جو اب سات ماہ سے لٹکا ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد نے قرض پروگرام کی کچھ شرائط نرم کرنے کی درخواست کی تھی۔
مشیر خزانہ شوکت ترین پچھلے کئی ماہ سے مسلسل یہی کہے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے کچھ سخت مطالبات معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہیں جنکے بارے میں شوکت ترین نے 5 نومبر تک کامیابی حاصل کرنے کی توقع ظاہر کی تھی۔ تاہم ابھی تک اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مطالبات خاص طور پر مرکزی بینک میں کی جانے والی اصلاحات سے متعلق ہیں جن کا مقصد اسٹیٹ بینک کا کنٹرول عملا عالمی مالیاتی ادارے کے ہاتھ میں دینا ہے۔ لہذا سات ماہ گزر جانے کے بعد بھی معاہدے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ان حالات میں امریکی ڈالر اپنی قدر مسلسل بڑھا رہا ہے جبکہ پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھو کر تاریخ کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے۔
آئی ایم ایف سے ڈیڈ لاک وزیر اعظم عمران خان کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کر رہا ہے جو پہلے ہی خطے کی تیز ترین مہنگائی اور حزب اختلاف کی جانب سے معیشت کو خراب کرنے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
یاد ریے کہ حکومت پاکستان نے بیلنس آف پیمنٹس کے بحران سے بچنے کے لیے 2019 میں آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالرز کا قرض حاصل کیا تھا جس کے صرف ایک سال بعد اس پروگرام کو کرونا وبا کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ آخر کار قرض دہندہ نے مارچ میں قرض کو دوبارہ جاری کرنے پر اتفاق کیا جب اپریل میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے آسان شرائط کی کوشش کی تھی۔
ان شرائط میں انکم ٹیکس اور بجلی کے نرخوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے قرض کی اضافی قسطوں کے اجرا کا فیصلہ فریقین کے درمیان کئی اجلاسوں کے باوجود غیر نتیجہ ثابت ہوئے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت آئی ایم ایف کے فنڈز ملکی معیشت کے لیے ایک ضروری سہارا ہیں۔ قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف کی پہلی شرط یہ تھی کہ سٹیٹ بینک پر وزارت خزانہ کی نگرانی کو ختم کر کے بینک کے بورڈ میں وزارت کے نامزد شخص کو ہٹا کر اسے مالیاتی طور پر خود مختار کیا جائے اور قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ دلایا جائے۔ اس مطالبے کو وزارت کے ساتھ ساتھ قانون سازوں کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور موجودہ صورتحال میں پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہونے کا امکان بھی نہیں ہے۔ دوسرا اہم نکتہ ٹریژری کو سنگل اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا ہے جس کے لیے تمام سرکاری فنڈز بینکوں سے مرکزی بینک میں منتقل کیے جانے ہوں گے۔ تاہم حکومت پاکستان ابھی تک ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے جس کے نتیجے میں موجودہ ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
مشیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے اختلافات کی تفصیل بتائے بغیر گذشتہ ماہ کہا تھا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان نے مالیاتی حوالے سے اختلافات دور کر لیے ہیں لیکن ابھی تک ایسا نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے بجلی کے نرخوں کے ساتھ ساتھ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جو حکومت کو آئی ایم ایف کے مقرر کردہ مالی اہداف کو پورا کرنے میں مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں حکومت پاکستان کی اقتصادی امور ڈویژن نے قرضوں سے متعلق جو تفصیلات جاری کی تھیں انکے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے تین ماہ میں تین ارب 10 کروڑ ڈالرز کا قرضہ لیا جبکہ اسی دوران 17 ارب روپے کی گرانٹس موصول ہوئیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو جولائی تا ستمبر 2021 چین سے سات کروڑ 33 لاکھ روپے قرض ملا تھا۔ اسکے علاوہ حکومت نے باہمی معاہدوں کے تحت سات کروڑ 69 لاکھ ڈالرز قرض لیا جبکہ امریکہ سے پاکستان کو تین ماہ میں دو کروڑ 72 لاکھ ڈالرز قرض ملا۔ مذید برآں ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو 45 کروڑ 99 لاکھ ڈالرز قرض فراہم کیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ ملٹی لیٹرل مالی اداروں سے ایک ارب 56 کروڑ ڈالرز قرض لیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ حکومت نے کمرشل بینکس سے 45 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کا قرضہ لیا تھا۔ حکومت کو مختلف ممالک اور ملٹی لیٹرل اداروں سے 10 کروڑ ڈالر کی گرانٹس بھی ملی ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود بھی پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں کا محتاج ہے۔

Related Articles

Back to top button