جسٹس وقار احمد سیٹھ ’جن کا دل بہت بڑا اور بے خوف رہتا تھا`

تحریر: شہزاد ملک، عزیز اللہ خان
کمرہ عدالت میں اپنے پانچ لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے درخواست کرنے والی خاتون رونے لگیں۔ سامنے بیٹھے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ افسردہ ہوگئے اور اسی عدالت میں موجود اعلی افسران سے کہا کہ افسوس ہے کہ ریاست شہریوں کو بنیادی حقوق دینے کی بجائے ان کا استحصال کر رہی ہے ۔
خاتون کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تھا۔ انصاف کے لیے عدالت پہنچنے والی اس خاتون نے تقاضا کیا کہ ان کے بچے ان کے حوالے کر دیے جائیں۔مجھے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے سینیئر وکیل شبیر حسین گگیانی کی آواز بھر آئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پشاور ہائی کورٹ میں ہر جمعے اور سوموار کو لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔ ان دو دنوں میں دور دور سے لوگ اس امید پر آتے تھے کہ شاید ان کے پیارے جو عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں ان کے بارے میں کچھ معلوم ہو سکے۔جسٹس وقار احمد سیٹھ جمعرات کو اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کورونا وائرس کے خلاًف جنگ لڑتے ہوئے وفات پا گئے۔ جمعے پشاور کے آرمی سٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انھیں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت جسٹس وقار احمد سیٹھ سے پہلے بھی اسی عدالت میں سنے جاتے تھے لیکن وکلا کے مطابق جب جسٹس سیٹھ وقار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تو ان مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا۔شبیر حسین گگیانی نے بتایا کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کسی دباؤ میں نہیں آتے تھے اور ان کا دل بہت بڑا اور بے خوف رہتا تھا اور شہریوں کے مقدمات کے لیے اداروں کو بار بار بلاتے اور جواب طلب کرتے تھے۔رواں برس ہی عدالت کے باہر دھماکہ ہوا لیکن جسٹس وقار نے اس بھی آنے والے سائلین کی درخواستوں کو سنا۔
لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر عدالت کی جانب سے ایک نوٹس بھی دیواروں پر چسپاں کیا جاتا تھا جس میں سکیورٹی چیک بطور خاص زور دیا جاتا تھا۔شبیر حسین گگیانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کے انسانی حقوق کے سیکشن میں افسران کو باقاعدہ کہا گیا تھا کہ اگر کوئی مرد یا عورت وکیل رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو ان کی درخواست وصول کی جائے اور اس درخواست کو ہی پیٹیشن بنا کر عدالت میں پیش کیا جاتا جس پر کارروائی کی جاتی۔
گذشتہ ماہ متعدد ایسے لاپتہ افراد کی درخواستیں سامنے آئی تھیں جو گذشتہ بارہ سالوں سے لاپتہ ہیں لیکن ان کے رشتہ داروں نے کہیں کسی سے رابطہ نہیں کیا تھا اور پشاور ہائی کورٹ میں اب درخواستیں دی تھیں۔چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ نے فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ اس سال جون میں سنایا تھا جس میں 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں جبکہ مزید ایک سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ تمام افراد کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انھیں رہا کر دیا جائے۔عدالت میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے تقریباً 300 سے زیادہ افراد کی اپیلیں زیرِ سماعت تھیں۔
اس وقت پشاور ہائی کورٹ میں اس نوعیت کی مزید 100 سے زیادہ اپیلیں موجود ہیں جبکہ وکلا کے مطابق 150 سے زیادہ لاپتہ افراد کے مقدمات بھی چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی عدالت میں تھے۔گذشتہ ماہ اسلام آباد سے ایک بزرگ خاتون فرحت سلطانہ اپنے رشتہ داروں کے پشاور ہائی کورٹ پہنچی تھیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے بیٹے کو کچھ اہلکار اسلام آباد کے جی 10 میں ان کے گھر آئے اور اپنے ساتھ لے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بہت روئی تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹے محمد عثمان کو پوچھ گچھ کے لیے لے جا رہے ہیں بہت جلد واپس آجائے گا لیکن انھیں اب تک رہا نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو یہاں ضلع خیبر کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے اور وہ یہاں پشاور ہائی کورٹ اس امید پر آئی ہیں کہ کہیں ان کے بیٹے کو رہا کر دیا جائے یا ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے۔
عارف جان ایڈووکیٹ پشاور ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے وکیل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کوئی دو سو کے لگ بھگ مقدمات کا فیصلہ سنایا اور اب بھی ڈیڑھ سو سے زیادہ اس طرح کی اپیلیں زیر سماعت ہیں جن کی ریکارڈ طلب کیے گئے ہیں۔شبیر حسین گگیانی کوئی ڈیڑھ سو سے زیادہ لاپتہ افراد اور جن کو فوجی عدالتوں نے سزائیں سنائی تھیں ان کی اپیلوں کے لیے جسٹس وقار احمد سیٹھ کی عدالت میں پیش ہو رہے تھے۔پشاور ہائی کورٹ میں اکثر دیکھا جاتا تھا کہ چیف جسٹس کے کمرے کے باہر لوگوں کا رش زیادہ ہوتا تھا اور ان کی عدالت میں دن میں زیادہ تعداد میں مقدمات کی سماعت ہوتی تھی۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ جج کو اپنے روزانہ کے مقدمات کی مکمل سماعت کرنا ضروری ہوتا ہے۔شبیر حسین گگیانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ عدالتیں بھی رہیں گی، قانون اور آئین بھی یہیں رہے گا لیکن ایسا جج جس کا دل شیر کی طرح ہو اور کسی دباؤ یا دھمکی سے مرعوب نہ ہوتا ہو ایسا جج مشکل سے آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ شہریوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے اور ان کا موقف توجہ سے سنتے تھے۔ان کی بیماری سے چند روز پہلے افغان بچوں کو غیر قانونی طور اکوڑہ خٹک کے ایک مدرسے میں لایا گیا جس پر دو مدارس کے درمیان اختلاف پیدا ہوئے اور معاملہ پشاور ہائی کورٹ لایا گیا تھا۔چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اس مقدمے کی سماعت پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں جب ایسے بچوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے افغانستان سے سرحد پار کرا کر لایا گیا ہے۔‘پاکستان میں قائم انٹرمنٹ سنٹرز یا حراستی مراکز کے بارے میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ مراکز کس کے کنٹرول میں ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے سیکرٹری داخلہ خیبر پختونخوا اور ڈی جی آئی ایس آئی کو عدالت میں طلب کیا تھا۔لاپتہ افراد اور فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کا ریکارڈ نہ لانے پر بھی انھوں نے سخت ریمارکس دیے تھے اور ان افراد کے ریکارڈ کے لیے انھوں نے متعلقہ ادارے کے اہلکاروں کو بار بار تنبیہ بھی کی تھی۔جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلوں کو جہاں سراہا جاتا رہا ہے وہاں ایک طبقہ ملٹری کورٹس سے سزا پانے والے افراد کی رہائی کے احکامات پر مطمئن نظر نہیں آتا اور یہ کہا جاتا ہے کہ بڑے جرائم میں ملوث افراد کو اگر سزائیں دی گئی ہیں تو انھیں برقرار رہنا چاہیے۔دوسری جانب جن بنیادوں پر پشاور ہائی کورٹ نے ان افراد کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے رہائی کے احکامات دیے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ایک تو شواہد پیش نہیں کیے گئے اور دوسرا ملزمان کو اپنے دفاع کا موقع فراہم نہیں کیا گیا جو کہ قانون اور آئین کے خلاف ہے۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے صوبے میں فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز سے متعلق جو فیصلہ دیا تھا اس کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ اس حراستی مراکز کے بارے میں چھ سے زیادہ سماعتیں ہوچکی ہیں اور وفاق کی اپیل کی آخری سماعت سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں ہوئی تھی جن کو ریٹائر ہوئے بھی ایک سال ہونے کو ہے۔وفاق کی جانب اس اپیل میں اس وقت کے اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انورمنصور نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنے اعتراضات کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کو مطمین نہیں کرسکے تھے۔ عدالت نے بارہا پوچھا تھا کہ اگر فیصلے پر ایسا اعتراض نہیں ہے جس سے یہ عدالت مطمعین ہوسکے تو پھر وفاقی حکومت نطرثانی کی اپیل میں کیوں آئی ہے۔ عدالت نے یہ بھی اعتراض اٹھایا تھا کہ اٹارنی جنرل یہ فیصلہ پڑھ کر ہی نہیں آئے۔وفاق کی اس اپیل کی سماعتوں کے دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سپریم کورٹ حراستی مراکز کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے گی۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد وفاق کی نظرثانی کی اپیل ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد، جو کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سربراہ بھی ہیں، کو خط بھی لکھا تھا جس میں اُنھوں نے ان سے جونئیر لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے پر اعتراض کیا تھا اور وہ اس کو اپنی حق تلفی سمجھتے تھے۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی جو کہ اعلی عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کرے والی کمیٹی کے رکن بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس خط کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی تاکہ اس معاملے میں ان کے موقف کو سنا جائے تاہم اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ اس درخواست کی فوری سماعت کے لیے اُنھوں نے 10 نومبر کو درخواست بھی دی جس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں ان کے فیصلے پر متضاد رائے سامنے آئی تھی اور حکومتی اراکین کی جانب سے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے پر کڑی تنقید بھی کی گئی تھی۔پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین شکنی پر سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔خصوصی عدالت نے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔جسٹس وقار نے اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے۔ اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل اگر وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔ان کے دور میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ضلعی سطح پر 83 ججوں کو نوکریوں سے نکالنے کی فیصلے پر تنقید کی گئی تھی اور وکلا کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ اس سے ضلعی سطح کی عدلیہ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔سینیئر وکیل شیر افضل ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضلعی سطح پر عدلیہ کو اپنا کھویا ہوا مورال بحال کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
بشکریہ : بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button