صحافیوں کو جبری اغوا کرنے والے بغاوت کے مجرم ہیں

پاکستان میں صحافیوں اور سوشل میڈیا بلاگرز کی پراسرار گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا ہے کہ ’جبری گمشدگی کا جرم بغاوت کے مترادف ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنائے جانے چاہیئں۔ یکم اپریل کو جسٹس اطہر من اللہ نے گمشدہ صحافی مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ملک کی آٹھ خفیہ ایجنسیاں حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں تو پھر اس کے ذمے دار چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعے کو بلاگر مدثر نارو اور دیگر جبری گمشدگیوں سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے انھوں نے ریمارکس دیے کہ ’جبری گمشدگی بغاوت ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے۔‘اس دوران ایک عدالتی معاون نے چیف جسٹس کو بتایا کہ 2011 میں تشکیل دیے جانے والے حراستی مراکز میں اس وقت بھی 1500 سے لے کر 2000 تک افراد موجود ہیں۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قانون سازی کر کے سب کو بتا دیا جائے کہ جبری گمشدگیاں ریاست کی پالیسی نہیں ہے۔

اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت چلنے والے ملک میں جبری گمشدگیاں ناقابل قبول ہیں۔ اپنی اہلیہ صدف اور چھ ماہ کے بیٹے سچل کے ہمراہ ملک کے شمالی علاقوں میں گھومنے کی غرض سے گئے مدثر نارو اگست 2018 میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اس دوران ان کی اہلیہ بھی صدمے کا شکار ہو کر جوان عمری میں ہی گزر گئیں اور اب مدثر کے بیٹے کو اس کے دادا اور دادی پال رہے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کی بازیابی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔

31 مارچ کو اس کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے عدالت کو بتایا کہ ’ملک کے سکیورٹی اداروں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر مدثر نارو کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی سے متعلق بنائے گئے کمیشن نے بھی مدثر نارو واقعے کو جبری گمشدگی کی کیٹیگری میں شامل نہیں کیا۔‘ اس۔پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’وزیر اعظم سے لاپتہ مدثر ناور کے خاندان کے افراد کی ملاقات کرائی گئی تھی، اس کے بعد کیا بنا؟‘ جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مدثر نارو کے حوالے سے ملک بھر کے سکیورٹی اداروں نے بہت کوشش کی ہے لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت بتایا کہا کہ دریائے کنہار کے کنارے سے ایک لاش بھی ملی تھی مگر وہ مدثر نارو کی نہیں تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت توقع کر رہی تھی کہ وفاقی حکومت مدثر نارو کی والدہ اور بیٹے سے ملاقات کرنے کے بعد ہِل جائے گی، اور آئندہ کوئی لاپتہ نہیں ہو گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’آج تک کسی کو ایسے واقعات میں ملوث ہونے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔‘

یاد رہے کہ مدثر نارو کی گمشدگی کے بارے میں اس سال عدالت میں جمع کروائی گئی پٹیشن کے مطابق 2018 کے انتخابات کے چند روز بعد ان کو فون پر کہا گیا کہ وہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کیا مدثر نارو کو بازیاب کروانا ریاست کی ناکامی نہیں ہے؟ انھوں نے کہا کہ یہاں حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے طلبہ کب سے احتجاج پر بیٹھے ہیں لیکن حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر ریاستی ادارے ایگزیکٹیو کے کنٹرول میں نہیں ہیں تو پھر چیف ایگزیکٹو اس کے ذمہ دار ہیں’۔

Forced abductors of journalists are guilty of sedition | video

Related Articles

Back to top button