چار وزراء پر فردجرم عائد ہوئی تو حکومت مفلوج ہو جائے گی


اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو 2014 میں درج ہونے والے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے کے کیس میں بری کرنے کے باوجود ان کی حکومت شدید مشکل میں پھنستی نظر آتی ہے کیونکہ عدالت نے وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر تعلیم شفقت محمود پر 21 نومبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو قانونی اور اخلاقی طور پر ان چاروں اہم ترین وزراء کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑ سکتا ہے جس سے حکومتی نظام مفلوج ہونے کا امکان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مل کر 12 نومبر سے پہلے کیا عدالت کو اپنا ذہن تبدیل کرنے پر راضی کر لیتے ہیں یا نہیں جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے؟
یاد رہے کہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے عمران خان کی جانب سے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس میں بریت کی درخواست پر 26 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 29 اکتوبر کو سنایا گیا۔ عمران کا موقف تھا کہ عمران خان کو جھوٹے اور بےبنیاد مقدمے میں پھنسایا گیا تھا۔ ماضی میں عمران خان اس مقدمے میں اشتہاری رہ چکے ہیں اور بریت کے فیصلے سے قبل ضمانت پر تھے جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری مقدمے میں بدستور اشتہاری ہیں۔ دوسری جانب مقدمے میں نامزد صدر مملکت عارف علوی کے بارے میں عدالت نے فیصلہ دیا یے کہ انہیں صدارتی استثنیٰ حاصل ہونے کے باعث ان کی حد تک کیس داخل دفتر رہے گا یعنی عہدہ صدارت کے دورن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ تاہم عدالت نے وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، شفقت محمود اور اسد عمر کے علاوہ صوبائی وزیر علیم خان، شوکت یوسف زئی اور جہانگیر خان ترین کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے 21 نومبر کو طلب کرلیا ہے جس نے حکومت اور وزیراعظم کو شدید پریشانی اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حالانکہ عمران خان پی ٹی وی کی عمارت اور پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کی قیادت کر رہے تھے لیکن پھر بھی ان کو اس لئے بری کر دیا گیا کہ سرکاری پراسیکیوٹر نے حکومت کی جانب سے ان کی بریت کی استدعا کی تھی۔ عمران خان کے وکیل نے بھی کہا تھا کہ ان کے مؤکل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کسی گواہ نے ان کے خلاف کوئی بیان دیا، اسکا کہنا تھا کہ یہ سیاسی مقدمہ ہے جس میں سزا کا کوئی امکان نہیں اس لیے ومران خان کو بری کیا جائے۔ سرکاری پراسیکیوٹر نے بھی دوران سماعت عمران کی بریت کی درخواست کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ سیاسی ہے اور اس پر مذید کارروائی صرف وقت کا ضیاع ہو گی۔ پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اگر عمران کو بری کر دیا جائے تو پروسیکیوشن کو اعتراض نہیں ہو گا۔ لہذا انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو بری کردیا جبکہ ان کے شریک ملزمان پر 21 نمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے 2014 میں اسٹیبلشمینٹ کے ایما پر نواز حکومت کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے کے تناظر میں ختم کردیا گیا تھا۔ دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات معطل ہوگئی تھیں۔ اسکے بعد عمران خان کی قیادت میں مشتعل مظاہرین کے ایک جلوس نے پارلیمنٹ بلڈنگ پر بھی حملہ کر دیا تھا اور اس کے جنگلے توڑ دیے تھے۔ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹیریٹ میں انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں عمران خان، عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔ اس معاملے پر استغاثہ کے مطابق 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے چار اہم ترین وفاقی وزرا کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے اعلان نے حکومتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو کپتان حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ذرائع کے مطابق ان چاروں وزرا نے اپنا مستقبل تاریک ہوتے دیکھ کر وزیراعظم سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بھائی لوگوں کے ذریعہ متعلقہ عدالت کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اس مقدمے میں پہلے ہی اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے جبکہ صدر عارف کی حد تک اس کیس کو داخل دفتر کر دیا گیا ہے کیونکہ انھیں صدارتی استثنا حاصل ہے اور صدارت سے ہٹنے کے بعد ان کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ستمبر 2014 میں اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے دوران ان جماعتوں کے کارکنوں نے پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دیا تھا اور سیاسی کارکنوں نے نشریات میں خلل ڈالنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک آڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں موجودہ صدر عارف علوی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ٹیلی فون پر اس واقعے کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔ اس آڈیو میں عمران خان کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ اب نواز شریف لازمی استعفی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا اور بعدازاں عدالت کے ذریعے نواز شریف کو اقامہ پر نااہل قرار دے کر اقتدار سے رخصت کر دیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button