’’سیہون کا خستہ حال تاریخی قلعہ حکومتی توجہ کا منتظر‘‘

سیہون جوکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لال شہباز قلندر کے مزار کی وجہ سے مقبولیت رکھتا ہے، اپنے تاریخی جھرونکوں میں ایک صدیوں پرانا قلعہ بھی سموئے ہوئے ہے جوکہ یہاں آنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
سیہون میں سالہا سال سے لال شہباز قلندر کے مزار پر عید کا سماں ہوتا ہے لیکن اسی شہر میں موجود ایک صدیوں پرانا تاریخی قلعہ بھی موجود ہے، سیہون قلعہ سندھ کے منتخب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کے آبائی حلقے میں تھا۔
تباہی کے دہانے پر پہنچے سے قبل اس قلعے کے حوالے سے سندھ کے تاریخ دان عشرت علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قدیم زمانوں میں سیہون کو مختلف ناموں جیسے کہ سیوستان یا شیوان سے پکارا جاتا تھا، 326 قبل مسیح میں یہاں سکندر اعظم کی حکومت تھی۔
اس علاقے پر مغلوں، موریا، ٹالپور اور میروں سمیت انگریزوں نے حکمرانی کی، آج یہ قلعہ صرف مٹی کا ڈھیر نظر آتا ہے، یہاں جلی ہوئی اینٹیں اور تباہ شدہ دیواریں دکھائی دیتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ جنگ کے دوران اس کی دیواریں گر گئی ہوں یا آگ لگا دی گئی ہو۔
عشرت علی خان کے مطابق کچھ انگریز تاریخ دانوں نے سیہون کا قلعہ 800 گز لمبا یا 400 گز چوڑا اور کسی نے 1200 گز تک لمبا بیان کیا ہے، اب ٹھیک سے علم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہو رہا ہے، ان کے مطابق محمود غزنوی کے علاقہ سرداروں نے حملہ کر کے اس قلعے کو غزنوی سلطنت کا حصہ بنایا تھا، 1551 کے آس پاس اکبر بادشاہ نے بھی اس قلعے کو فتح کرنے کے لیے فوج بھیجی۔
عشرت علی خان کا کہنا ہے کہ ایک کہانی اس قلعے کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر کو جلال اور غصہ آیا تو انہوں نے یہ قلعہ زمین سے اُلٹ دیا تھا، لیکن اس حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاعات موجود نہیں ہیں۔
عشرت علی خان نے ارباب اختیار کی اس طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے درخواست کی کہ وہ قلعے کی تزئین و آرائش میں کردار ادا کریں تاکہ سیاحوں کو اس شاہکار کی طرف بھی موڑا جا سکے، قلعہ اپنی تاریخی ہیت کے اعتبار سے شاہکار نمونہ ہے جس کو سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنایا جا سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button