نماز باجماعت پر فتوے کے باوجود پاکستانی علما بضد

دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لینے والےمہلک کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے جہاں سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک نے مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی پر عارضی پابندی عائد کردی وہیں پاکستان میں کرونا متاثرین کی تعداد میں روزانہ اضافے کے باوجود علمائے دین مساجد بند نہ کرنے کی زد پر اڑے ہوئے ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد میں مصر کے سفیر کے ذریعے شیخ الازہر سے کرونا وائرس کی وبا کے سلسلے میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے رہنمائی کرنے کی درخواست کی تھی۔جس پر مصر کی جامعہ الازہر کے علما کی سپریم کونسل نے انسانی زندگیوں کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے باجماعت اور جمعے کی نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے باضابطہ فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ فتوے کے مطابق کرونا وائرس بڑی آسانی اور تیزی سے پھیلتا ہے اور اسلامی قانون کے عظیم مقاصد میں سے ایک زندگی کو بچانا اور تمام خطرات و نقصانات سے محفوظ رکھنا ہے۔
فتوے میں مزید کہا گیا کہ ہر مسلمان ملک میں ریاستی عہدیداروں کو اجازت ہے کہ وہ تمام عوامی اجتماعات بشمول باجماعت اور جمعے کی نمازوں پر کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور لوگوں کی اموات کے خدشے کے پیش نظر قانونی طور پر پابندی لگا سکتے ہیں۔کیونکہ عوامی اجتماعات بشمول نمازیں اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔مزید کہا گیا کہ مسلمان ممالک میں سرکاری حکام کو باجماعت نماز و جمعہ کی نمازوں کو منسوخ کرنے کا پورا اختیار ہے۔

دوسری طرف مصر کی جامعہ الا زہر سے جاری ہونیوالے فتوے کے برعکس پاکستان کے مختلف مکاتب فکر کے معروف و جید علمائے کرام نے ایک پریس کانفرنس کی اور مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ علما نے اتفاق کیا کہ مساجد کھلی رہیں گی، پنجگانہ اذان، اقامت اور باجماعت نماز جاری رہے گی، تمام نمازی گھر سے وضو کرکے آئیں اور ہر قدم پر اللہ کی طرف سے نیکیاں پائیں، سنتیں گھر پر ادا کریں، اگر طبی وجوہات کی بنا پر حکومت نمازیوں کی تعداد پر پابندی عائد کرے یا خاص عمر کے افراد کو مسجد جانے سے منع کرے تو شرعاً وہ معذور سمجھے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘جن میں وائرس کا شبہ ہو یا علامات پائی جائیں، 50 سال سے زائد عمر کے لوگ اور ایسے افراد کے امراض اس وائرس سے بڑھ جانے کا خطرہ ہو وبا کے پورے دور میں وہ مساجد نہ آئیں انہیں ترک جماعت کا گناہ نہیں ہوگا۔ تاہم صحت مند افراد کو لازمی طور پر مسجد آ کر نماز ادا کرنی چاہیے۔

اب ان مولوی حضرات کو کون سمجھائے کہ کرونا وائرس نہیں دیکھتا کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر اور کون باوضو ہے اور کون بے وضو۔ یہ موذی وائرس جب حملہ کرتا ہے تو بلا تفریق حملہ آور ہوتا ہے اور اس کے تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجہ بہت سارے افراد کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ہے۔ جب لوگ مساجد میں اکٹھے ہوں گے تو کرونا ایک متائثر شخص سے سینکڑوں اور سینکڑوں سے ہزاروں اور ہھر لاکھوں میں پھیل جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button