کیا وقت سے پہلے نئے آرمی چیف کی تقرری کرنا ممکن ہے؟

موجودہ کشیدہ سیاسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نئے آرمی چیف کی قبل از وقت تقرری کے امکانات کے حوالے سے بحث زور پکڑ گئی ہے اور آئینی اور قانونی ماہرین کی آرا منقسم نظر آتی ہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی سات ماہ باقی ہیں کیونکہ انکی معیاد نومبر 2022 میں مکمل ہونی ہے لہٰذا یہ بحث غیر ضروری یے۔

لیکن دوسری جانب کچھ ماہرین ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں نئے آرمی چیف کا تقرر کرنا یا قبل از وقت ان کے نام کا اعلان کرنا وزیر اعظم کا آئینی استحقاق ہے اور انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن اس امکان کے خلاف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ایسا کرنے سے بیک وقت ملک میں دو آرمی چیف ہونے کا تاثر پیدا ہو جائے گا جو ایک ڈسپلنڈ فورس کے لیے قطعاً نامناسب ہو گا اور اس کے خلاف ردعمل بھی آ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت نومبر میں ختم ہوگی، وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے ابھی نہیں سوچا ہے۔ اس سے قبل عمران خان نے اگست 2019 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے صرف 3 ماہ قبل ہی انکی مدت میں تین سال کی توسیع کردی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان دراصل سابق آئی ایس آئی چیف اور موجودہ کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں لیکن تکنیکی طور وہ رواں ماہ نومبر میں اس اہم ترین عہدے کے لئے اہل ہوں گے جب بطور کور کمانڈر وہ اپنی سروس کا ایک سال پورا کریں گے، ایسے میں اگر عمران خان جنرل باجوہ کو ہٹانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ کسی سنئیر جرنیل کو قبل از وقت نیا آرمی چیف نامزد کرسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ ماضی میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے جب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا تھا تو سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان نے جنرل ضیاءالدین کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تھا لہذا جنرل مشرف کے وفادار جرنیلوں نے بغاوت کر دی اور نواز شریف کو گرفتار کرلیا گیا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں آرمی چیف کو ہٹانے کے حوالے سے وزیراعظم کے اختیارات واضح نہیں تھے لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ نومبر 2019 میں جب آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو توسیع دی گئی تھی تب یہ قانون بھی بنا تھا کہ وزیر اعظم کسی بھی آرمی چیف کو قبل از وقت عہدے سے ہٹا بھی سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان کو بھی نئے آرمی چیف کے تقرر یا توسیع سے جوڑا جا رہا ہے اور یہ شنید بھی ہے کہ وزیر اعظم نے صدر علوی سے دو اہم ترین نوٹیفکیشنز ہر دستخط کرواکر اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ایک نوٹیفیکیشن نئے چیف کے تقرر سے متعلق ہے جبکہ دوسرا قومی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ہے، تاہم صدر نے ان قیاس آرائیوں کو یکسر بے بنیاد قرار دیا ہے۔

نواز شریف کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین کیوں ہے؟

ایک حالیہ انٹرویو میں صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ابھی ان سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی بارے مشاورت نہیں کی، تاہم وقت آنے پر وزیراعظم مشاورت کریں گے۔ صدر مملکت نے واضح کیا کہ وزیراعظم کو انکی طرف سے دستخط شدہ دستاویزات نہیں دی گئیں اور ویسے بھی وہ ایسا معاملہ چھپا کر نہیں رکھ سکتے کیونکہ جب بھی ایسے کوئی دستخط ہوتے ہیں تو ایک آئینی طریقہ کار کے تحت ہوتے ہیں لہذا بات پبلک ہوجاتی ہے۔

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی قبل از وقت تعیناتی کرنے کی نہ تو کوئی وجہ ہے، اور نہ ہی وزیراعظم عمران خان ایسا کوئی کام کریں گے۔ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ایک وقت میں دو آرمی چیف نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں وہ پاکستان آرمی کے معاملات سے واقف نہیں۔ بقول اعجاز اعوان 6نیا 7 ماہ قبل ہی کوئی نیا آرمی چیف انائونس ہو جائے، ایسا نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی پہلے کبھی ہوا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان آرمی میں جب بھی کور یا ڈویژن کی کمانڈ تبدیل ہوتی ہے تو پرانا کور کمانڈر نئے کے آنے سے 12 گھنٹے پہلے سٹیشن چھوڑ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان آرمی میں کوئی ہینڈنگ اوور یا ٹیک اوور ٹائپ تقریبات نہیں ہوتی۔ نیا آرمی چیف جب اپنا عہدہ سنبھالتا تو اس دن اپنی کین یا چھڑی ہینڈ اوور کرنے کی رسم بھی پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل کیانی کے دور میں پڑی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ نئے آرمی چیف کی انائونسمٹ 15 نومبر سے پہلے ہو سکتی ہے۔

آرمی چیف کو تعینات کرنا وزیراعظم کی صوابدید ہے لیکن ایسا اس مقررہ مدت سے پہلے ہونے نہیں جا رہا۔ جب اعجاز اعوان سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل باجوہ کی دوبارہ ایکسٹینشن ہو سکتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایکسٹینشن ہونے کو ہو بھی سکتی ہے لیکن اسکی ضرورت ہی کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی اس عہدے پر 6 سال گزار چکے ہیں۔ اب اگر کوئی انھیں مزید ڈیڑھ سال بٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تو میرے خیال میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ آئینی طور پر تو یہ درست ہوگا لیکن ہوگا یا نہیں، اس کا فیصلہ 15 نومبر سے پہلے نہیں ہوگا۔

یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں جب وزیراعظم سے نئے آرمی چیف کے تقرر یا توسیع کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ نیا سال ابھی شروع ہوا ہے اور نومبر بہت دور ہے، پھر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی فکر کیوں ہے۔ میں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں نہیں سوچا۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان آرمی چیف کے حوالے سے کوئی مس ایڈونچر کرتے ہیں یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button