لباسوں کے مارشل لاء میں جینز ایک جمہوریت ہے

اسلام آباد میں وفاقی بورڈ کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے جینز پہننے پر پابندی کے حکومتی فیصلے کے ناقدین کا کہنا یے کہ اگر استاد جینز نہ پہنیں تو اتنی قلیل تنخواہوں میں کیا دھوتی خرید کر پہن لیں؟ انکا اصرار ہے کہ جینز لباسوں کے مارشل لا میں ایک جمہوریت ہے۔

حکومتی فیصلے کے ناقدین کہتے ہیں کہ جینز جب سے بنی ہے تب سے پاکستان میں پابندیوں کی زد میں رہی ہے لیکن غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ روزمرہ پہننے کے لیے اس سے زیادہ آرام دہ چیز کوئی نہیں ہے۔ انکا کہنا ہے کہ یقین کریں جینز ایک کپڑا نہیں ہے بلکہ خدا کا احسان ہے۔

جینز کے قصیدے بیان کرتے ہوئے معروف لکھاری حسنین جمال اپنی ایک تحریر میں کہتے ہیں کہ جینز کی ایجاد پر ہمیں رب کا شکر ادا کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ایک فقیری بوریا ہے جسے استری کی بھی ضرورت نہیں، بس اٹھاؤ اور پہن لو۔ اگر سردیاں ہیں، اور دھونے کی ہمت نہیں تو شاپر میں لپیٹ کے فریزر میں رکھ دو، اگلے دن نکالی، جھٹکی، ہیٹر کے آگے گرم کی اور یہ جا وہ جا.

حسنین جمال کہتے ہیں کہ ہم لوگ تو پھر بھی کافی سارے کپڑے خرید لیتے ہیں، گوروں میں اس خرچے کا رجحان تھوڑا کم ہوتا ہے۔ وہ کپڑے کم لیتے ہیں لیکن انتہائی زیادہ چھان پھٹک کے، اور جینز کا تو یہ ہے کہ اگر ایک بار پسند کی فٹنگ مل گئی تو اسے اپنے یا پتلون کے فنا ہونے تک نہیں اتارتے۔ جینز الگ ہی پہناوا ہے، ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ دیکھیں ایک طرف سوٹ بوٹ والے کلچر کی اکڑفوں ہے، کریز والی پینٹ ہے، ٹائی ہے، اوور کوٹ ہے، دوسری طرف شیروانی ہے، اچکن ہے، واسکٹ ہے، چھتیس گز گھیر کی شلوار ہے، تیسری طرف چوڑی دار پاجامہ ہے، گھٹنوں تک آتی ایک قمیص ہے، سو لوازمات ہیں ۔۔۔ ایسے میں دور کھڑی ایک اکیلی جینز سیٹیاں بجا رہی ہے۔ بہت دل کیا تو اس کے ساتھ کوئی بھی شرٹ پہن لی۔ جینز ان سب رسمی کلچروں سے باغی ہونے کی علامت ہے، جینز دکھاوے کی دنیا سے بہت دور کا راستہ ہے، جینز لباسوں کے مارشل لا میں ایک جمہوریت ہے بلکہ جینز سکون پانے کا واحد راستہ ہے۔

موصوف مذید لکھتے ہیں کہ اگر آپ روزمرہ زندگی میں جینز نہ پہن سکتے ہوں تو اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہے۔ جینز سفید پوشوں کا بھرم ہے۔ آپ کو پتہ ہے اس پاکستان میں ہی کتنے لوگ ایسے ہیں جو ایک کالی اور ایک نیلی جینز میں ساری عمر نکال دیتے ہیں؟ کوئی بھی دوسرا کپڑا آپ آج پہننا شروع کریں، ایک مہینے بعد اس کے خرچوں سے ناک میں دم ہو جائے گا۔ حسنین جمال۔سوال کرتے ہیں کہ سو برس ہو گئے، لیکن کسی بھی فیشن میں نیلی جینز آپ نے آؤٹ ہوتے دیکھی ہے کبھی؟ کیا جادو ہے؟ غور کیا کبھی؟ جینز کیوں نہیں نکلتی فیشن سے؟ کارڈرائے نکل گیا، کینوس نکل گیا، ٹویڈ نکل گیا، لیکن جینز اپنی جگہ پہ جمی ہوئی ہے۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جتنی دھلے گی اتنی نکھرے گی، جتنی گھِسے گی اتنی آرام دہ ہو گی، جتنی پھٹے گی اتنی ’کول‘ ہو جائے گی، آپ اسکو جتنے پیوند لگائیں گے، اتنے ہی ’ہاٹ‘ ہو جائیں گے، اس سے زیادہ غریب نوازی کیا ہو گی؟ شلوار قمیص یا ڈریس پینٹ کو اگر رفو کرایا ہو تو پہننے سے پہلے دس بار سوچیں گے، یہ تو پھٹی ہوئی بھی فیشن ہے، اور کیا چاہیے آدمی کو؟ یا چمڑی، یا اوپر ایک جینز؟

ھسنین جمال کے مطابق جینز میں واحد چیز اس کی فٹنگ ہوتی ہے بس۔ اگر جسمانی ساخت کے لحاظ سے آپ نے اچھا فٹ پہنا ہوا ہے تو وہ سدا بہار ہے۔ مثلاً لمبے قد والے دبلے لوگوں کے لیے سٹریٹ فٹ یا ہلکا سا بوٹ کٹ، درمیانے قد والوں کے لیے نسبتاً سکن فٹ، بہت دبلے افراد کے لیے ریلیکس فٹ اور جو تھوڑے وزن میں زیادہ ہیں ان کے لیے بھی سکن فٹ سے ایک درجے اوپر لیکن سٹریچ ایبل کپڑے میں۔ باقی مردوں کی دنیا میں کمر سے بہت اوپر جینز باندھنے کا رواج کبھی نہیں آئے گا یاد رکھیے، اگر آپ کو علم نہیں ہے تو وہ بیس سال پہلے مُک گیا تھا۔

موصوف جینز کی محبت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کون کہتا ہے کہ جینز ہمارا کلچر نہیں ہے، کیا آپ نہیں جانتے کہ جینز کا نیلا رنگ ہماری دھرتی سے پھوٹتا ہے، نیل کا پودا، انڈیگو ۔۔۔ ساری دنیا میں ادھر سے نیلا رنگ جاتا تھا، سولہویں صدی سے جینز کا یہ کپڑا بن رہا ہے اور ہمارا نیل استعمال ہو رہا ہے۔ ہم سے زیادہ کپاس کس نے اگائی، ہم سے زیادہ نیل کس نے پیدا کیا اور ہم سے زیادہ نخرے بھی کون کرے گا! ایک عرصے تک لیوائز کمپنی کو بھی اعلیٰ اور سستے داموں جینز بن کے ہمارے یہاں سے ہی جاتی تھی۔ دو منٹ کے لیے سوچیں جینز نہ ہو تو آپ کیا پہنیں گے؟ مختصر یہ کہ اگر آپ کی زندگی میں جینز نہیں تو سمجھ لیجیے کہ کچھ بھی نہیں۔

تاہم وفاقی بورڈ کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے جینز پہننے پر پابندی کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے حسنین جمال کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس ویسے بھی زور چلانے کے لیے لے دے کے استاد ہی بچتے ہیں جن بے چاروں کی تنخواہیں مشکل سے گھر کے خرچے پورے کرتی ہیں۔ انہیں جینز سے محروم کرنے کا مطلب ہے کم از کم ماہانہ دس سے پندرہ ہزار کا اضافی خرچہ ان کے سر پہ ڈالنا، یا تو شاگردوں کی طرح استادوں کی بھی یونیفارم ہو جائے بھائی یا پھر یہ روز روز کے رنگ برنگے نوٹس ختم کر کے بیس ہزار روپیہ ڈریسنگ الاؤنس ہر مہینے ان کو دے حکومت۔ اس سے کم میں ’فارمل ڈریسنگ کوڈ‘ پہ اترنے والے کپڑے روزانہ پہن سکنا ممکن ہی نہیں! میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ آج تک صرف انہی استادوں سے کچھ سیکھ پایا ہوں جو کہ جینز پہنتے تھے اور اپنے اپنے سے لگتے تھے۔ پتلون، کوٹ اور ٹائی اب صرف سیلزمین لگاتے ہیں، بینک والے، یا پھر پراپرٹی ڈیلر، مہذب دنیا بہرحال جینز کو قبول کر چکی ہے۔ لہذا اب حکومت پاکستان کو بھی جینز کو قبول کر لینا چاہیے۔

Related Articles

Back to top button