افغان صدر اشرف غنی امن معاہدے کی وضاحت امریکا سے مانگیں

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکا-طالبان معاہدے میں یہ درج ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ ہو گا صدر اشرف غنی کو چاہیے کہ وہ معاہدے کی وضاحت امریکا سے مانگیں۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے افغان امن عمل کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ دوحہ میں جو امن معاہدہ ہوا وہ بہت بڑی پیش رفت ہے یہ جو موقع میسر آ یا ہے اسے گنوا نا نہیں چاہیے. ان کا کہنا تھا کہ افغان قیادت پر اب ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سازگار ماحول پیدا کرے جس سے گفتگو آ گے بڑھے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘دوحہ میں جو ہوا وہ پہلا قدم تھا اب اگلا قدم انٹرا افغان مذاکرات ہیں، اس کی اعتماد سازی کے لیے دونوں فریقین کو آگے بڑھانا چاہیے’۔

انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کو تجویز دی کہ انہیں مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اور طالبان بھی فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ عمل آ سان نہیں ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتا تو نقصان افغانستان اور افغان عوام کا ہو گا’۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بیس سال کی جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا، جنگ کوئی راستہ نہیں ہے، اب فریقین کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افغان قیادت کی آ زمائش ہے جتنے وہاں دھڑے ہیں سب کی آ زمائش ہے کہ وہ آ گے بڑھتے ہیں یا اسی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہیں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان نیک نیتی سے چاہتا ہے کہ معاملات سدھریں، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے اور اس کے لیے جو کردار ہم نے ادا کرنا تھا وہ کیا اور دنیا نے اسکو سراہا’۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘اس معاہدے پر اگلا قدم اٹھانا افغانوں کا کام ہے، اس میں آ گے بڑھنے کے لیے افغان جو اقدامات اٹھائیں گے پاکستان ان کی حمایت کرے گا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان ایک سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے ان کے فیصلے نہیں کر سکتا’۔ انہوں نے کہا کہ امریکا-طالبان معاہدے میں یہ درج ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ ہو گا، صدر اشرف غنی کو چاہیے کہ وہ معاہدے کی وضاحت امریکا سے مانگیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘میری معلومات کے مطابق زلمے خلیل زاد مذاکرات کے حوالے سے افغان قیادت کو آگاہ کرتے رہے ہیں، ماضی میں بھی قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے، جب جنگ سے امن کی طرف بڑھتے ہیں تو خیر سگالی کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ‘اگر ہٹ دھرمی سے کام لینا ہے تو بات آ گے نہیں بڑھ پائے گی، یہ ایک منطقی قدم ہے جو اٹھنا چاہیے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘معاہدوں کے ساتھ رویوں کو بھی ٹھیک کرنے ہوں گے، رکاوٹیں ڈالنے والے تو پہلے بھی تھے اب سیاسی قیادت کا کمال یہ ہے ک وہ ان کو نا کام کریں’۔ واضح رہے کہ 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے 14 ماہ میں غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہونا تھا جس کے بدلے میں افغان طالبان نے سرزمین کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی کے لیے استعمال ہونے نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

معاہدے کے تحت 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم اس سے قبل افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے 5 ہزار اور طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔ بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ وہ عارضی معاہدے کو افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز تک جاری رکھیں گے جو ممکنہ طور پر 10 مارچ کو ہوگا تاہم انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مسترد کردیا۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ‘بین الافغان مذاکرات کے لیے ہم پوری طرح تیار ہیں تاہم ہمیں ہمارے 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے’۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘اگر ہمارے 5 ہزار قیدی (جس میں 100 یا 200 کم یا زیادہ معنیٰ نہیں رکھتے) رہا نہیں کیے گئے تو بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے’۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button