کیا جذباتی اور کھرے یونس خان PCB کے ساتھ چل پائیں گے؟


پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے لیے بیٹنگ کوچ مقرر کیے جانے والے اسٹار بیٹسمین یونس خان کا بین الاقوامی کیریئر خاصا ہنگامہ خیز رہا ہے۔ ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کھرے لیکن انتہائی جذباتی انسان ہیں لہذا دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ بطور بیٹنگ کوچ سیاست زدہ کرکٹ بورڈ میں ایڈجسٹ ہو پائین گے یا پھر آؤٹ ہوجائیں گے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز یونس خان کیساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ نے دورہ انگلینڈ کے لیے سپن بولنگ کوچ کے طور پر سابق لیگ سپنر مشتاق احمد کی تقرری بھی کی ہے۔ پاکستانی ٹیم کو آئندہ ماہ انگلینڈ کا دورہ کرنا ہے جہاں اسے تین ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلنی ہے تاہم موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ دورہ پاکستانی حکومت کی اجازت سے مشروط ہے.
تاہم یونس خان کی بطور بیٹنگ کوچ تقرری کے بعد سے یہ بات زیر بحث ہے کہ جذبات سے بھرپور اور کھرے یونس خان کتنا عرصہ کرکٹ بورڈ کے ساتھ چل پائیں گے۔ یاد ریے کہ انھوں نے 2006 میں پاکستانی ٹیم کی قیادت صرف اس وجہ سے چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا کہ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے انھیں ملاقات کے لیے چند منٹ انتظار کو کہا تھا۔
2009 میں یونس خان پر سینیٹ کی سپورٹس سے متعلق کمیٹی نے جب مبینہ طور پر میچ فکسنگ کا الزام عائد کیا تو انھوں نے اس وقت بھی کپتانی سے استعفیٰ دے دیا تھا حالانکہ کمیٹی کے سامنے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ نے ان کا بھرپور دفاع کیا تھا۔
اسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ہوم سیریز کے موقع پر بھی انھوں نے کپتانی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جب ٹیم کے کئی کھلاڑی ان کے مبینہ سخت رویے کی وجہ سے ان کی کپتانی میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جہاں تک کوچنگ کی بات ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے دو سال قبل یونس خان کو پاکستان کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی پیشکش کی تھی لیکن اختیارات اور معاوضے پر فریقین کے درمیان اختلاف کی وجہ سے وہ یہ ذمہ داری نہیں سنبھال سکے تھے۔ 2018 میں ہی یونس خان اس وقت بھی خبروں میں آئے تھے جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیول تھری کوچنگ کورس میں شرکت کے دوران انھوں نے مناسب کمرہ نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا۔ یونس خان جب اس کورس میں شرکت کے لیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی آئے تو انھیں علم ہوا تھا کہ اکیڈمی میں ان کے لیے کمرہ نہیں رکھا گیا اور انھیں اکیڈمی کے ڈائریکٹر مدثر نذر کے کمرے میں ٹھہرایا گیا ہے تو انھوں نے سخت ناراضی ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹر پر نشر کی جانے والی ویڈیو کے ذریعے احتجاج کیا۔
سوشل میڈیا پر حمزہ بٹ نامی صارف نے یونس خان کے کرکٹ ریکارڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بالاخر مصباح خان اور پی سی بی نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا ‘شعیب اختر نے پی سی بی پر تنقید کی، لیکن بعد میں بورڈ نے انھیں ٹیم کے ساتھ سیشن کے لیے بلایا، یونس خان نے پی سی بی پر تنقید کی، لیکن اب انھیں بیٹنگ کوچ بنایا جا رہا ہے۔ وسیم خان نے اپنی انا کو بس کے نیچے پھینکتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا ہے۔‘
سرحد پار سے ایک صارف نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ پی سی بی کو اندازہ ہو گیا ہے کہ یونس خان کس قدر تجربہ کار ہیں۔
یونس خان کے برعکس مشتاق احمد کے لیے قومی ٹیم کی کو کوچنگ نئی چیز نہیں۔ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر کوچنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی قومی اکیڈمی سے ہیڈ کوچ کے طور پر وابستہ رہنے کے علاوہ قومی ٹیم کے ساتھ سپن بولنگ کی ذمہ پہلے بھی نبھا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیموں کے سپن بولنگ کوچ بھی رہ چکے ہیں۔
وہ انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ 2003 میں انہوں نے کاؤنٹی سیزن میں 103 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کی شاندار بولنگ کی وجہ سے سسیکس کاؤنٹی نے اپنی تاریخ میں پہلی بار کاؤنٹی چیمپئن شپ جیتی تھی۔ 2006 کے سیزن میں بھی انھوں نے غیر معمولی کارکردگی دہراتے ہوئے102 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
دوسری طرف پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو توقع ہے کہ یونس خان اور مشتاق احمد کا تجربہ انگلینڈ کے دورے میں ٹیم کے کام آئے گا۔ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ وہ جب کپتان بنے تھے تو اس مشکل وقت میں انھیں یونس خان کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ’اب جب وہ دوبارہ ٹیم کا حصہ بنے ہیں تو انہیں امید ہے کہ وہ ایک بار پھر اسی طرح ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ’ان کی ٹیم میں موجودگی سے نوجوان کرکٹرز کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا اور انھیں اس عظیم کرکٹر سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔‘
مصباح الحق کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاکستانی ٹیم کے لیے انگلینڈ کا دورہ بہت بڑا چیلنج ہے اور اس دورے میں یونس خان کے ساتھ ساتھ تجربہ کارمشتاق احمد کی موجودگی سے پاکستانی ٹیم کو اپنے مقاصد پورے کرنے میں مدد ملے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button