کپتان نے خطرناک ہونے کی تڑی اسٹیبلشمنٹ کو لگائی؟

حکومتی ترجمانوں کی مسلسل وضاحتوں کے باوجود یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ’’خطرناک‘‘ بن جانے کا پیغام انہی کے لئے ہے جو کپتان کو اقتدار میں لے کر آئے تھے اور اب بقول کپتان یہی عناصر سازش سے انہیں اقتدار سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں.

سنیئر صحافی نصرت جاوید اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان حالیہ گفتگو میں اپنے مخالفین کو خبردار کرتے سنائی دئیے کہ اگر ان کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی تو وہ بہت ’’خطرناک‘‘ بن جائیں گے۔ ’’خطرناک‘‘ کے لفظ کو بنیاد بناتے ہوئے بے تحاشہ افراد کی جانب سے اب یہ سوال دہرایا جارہا ہے کہ مبینہ ’’دھمکی کا حقیقی‘‘ مخاطب ’’کون‘‘ تھا۔حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کا اصرار ہے کہ ’’خطرناک‘‘ بن جانے کی دھمکی فقط اپوزیشن کے ان سازشی عناصر کو دی گئی ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے عمران حکومت کی بابت ’’صبح گیا یاشام گیا‘‘ والا ماحول بنارہے ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میں ذاتی طورپر ترجمانوں کی ایجاد کردہ اس توجیہہ کو دل وجان سے تسلیم کرنے کو آمادہ ہوں لیکن ابلاغیات کا طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ اصول بھی یاد رکھنے کو مجبور ہوں کہ سیاست اور اقتدار کے سفاک کھیل میں تاثر حقیقت سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے وزیر اعظم کا ’’خطرناک‘‘ بن جانے والا فقرہ ویسا ہی سنائی دیا جو 1977میں مارشل لاء کے نفاد سے چند دن قبل ذوالفقار علی بھٹو کی زبان سے ادا ہوا تھا۔

ان کے خلاف نوستاروں والی تحریک ان دنوں اپنے عروج پر تھی۔ اس سے نبردآزما ہونے کے دوران ذوالفقار بھٹو پی ٹی وی کے ذریعے قوم سے خطاب کو مجبور ہوئے۔ اپنے خطاب کے دوران بار ہا کرسی کے بازو پر گھونسہ مارتے ہوئے دہراتے رہے کہ ’’یہ وزیر اعظم کی کرسی بہت مضبوط ہے‘‘۔

نصرت کے بقول، اپریل 1993کی ایک شام نواز شریف نے بھی قوم سے خطاب میں یہی کہا تھا کہ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خطاب کے عین دوسرے دن صدر غلام اسحاق خان نے پرانے آئین میں موجود آٹھویں ترمیم کے تحت میسر اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران حکومت کے خلاف نوستاروں جیسی کوئی تحریک چل نہیں رہی۔ صدر کو بھی اب منتخب حکومت برطرف کرنے والا اختیار میسر نہیں رہا۔

عمران خان کی دیانت داری کا بت پاش پاش ہو چکا ہے

اس تناظر میں ’’خطرناک‘‘ بن جانے کی تڑی لگانے کا میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو کوئی قابل اعتبار جواز نظر نہیں آرہا۔ اسی باعث سوال مسلسل اُٹھ رہا ہے کہ ’’خطرناک‘‘ بن جانے والا پیغام کسے دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹھوس سیاسی حقائق پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ہماری اپوزیشن جماعتوں کو تڑی لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ چند ہی دن قبل عمران حکومت نے عوام پر 377ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے والا منی بجٹ عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہوئی قومی اسمبلی سے منظور کروایا ہے۔

اسی روز دیگر 15قوانین بھی یکمشت منظور کروالئے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی صفوں میں واقعتاً کسی نوع کی بغاوت اُبل رہی ہوتی تو منی بجٹ کی منظوری کے دوران منظر عام پر آ جاتی۔ منی بجٹ کی منظوری سے قبل حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا جو اجلاس ہوا اس کے دوران عمران خان اور ان کے دیرینہ دوست اور تحریک انصا ف کے قدیمی رہ نما پرویز خٹک کے مابین تھوڑی تلخ کلامی یقیناً ہوئی لیکن پرویز خٹک نے اس کے بعد منی بجٹ کو سرعت سے منظور کروانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ پشاور سے منتخب ہوئے نور عالم نے بھی اس دن اپنی نشست پر کھڑے ہوکر منی بجٹ کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا۔

نور عالم کے علاوہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں میں بیٹھے تمام اراکین عمران خان کی حمایت میں جی حضوری والے انداز میں سینوں پر ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے ہیں۔ ایسے عالم میں اِن ہاؤس تبدیلی کی امید جگانا بچگانہ خوش گمانی ہی محسوس ہوتی ہے۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی ’’اوقات‘‘ تو آج سے دو سال قبل تب ہی بے نقاب ہوگئی تھی جب سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی صاحب کے خلاف بہت دھوم دھام سے تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔

جب وہ ایوان میں پڑھی گئی تو ان کی حمایت میں ایک سو افراد پر مشتمل ایوان میں سے 64 افراد اپوزیشن کی نشستوں پر کھڑے ہوئے لیکن خفیہ رائے شماری کے دوران 14اراکین نے اپنی رائے بدل لی اور اپوزیشن آج تک ان لوگوں کی نشاندہی نہیں کرپائی ہے جنہوں نے اسے آخری لمحات میں دھوکا دیا۔ نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں اور ستمبر 2020 میں بہت طمطراق سے پی ڈی ایم نامی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

اس اتحاد کے تحت ہمارے تمام بڑے شہروں میں اجتماعات ہوئے۔ ان میں سے اکثر اجتماعات سے لندن میں مقیم ہوئے نواز شریف نے بھی ٹیلی فونی خطاب کئے۔ وہ اتحاد مگر چھ ماہ سے زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ پایا۔ اپوزیشن بلکہ اس کے بعد کاملاََ منقسم ہوئی نظر آرہی ہے۔

بقول نصرت جاویدایسی بے بس ولاچار اپوزیشن کو عمران خان کی جانب سے مزید خطرناک ہوجانے والی تڑی لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اسی باعث ہکا بکا ہوئے بے تحاشہ افراد بے تابی سے سوال اٹھارہے ہیں کہ ’’خطرناک‘‘ بن جانے کا پیغام کسے دیا گیا ہے لیکن سبھی جانتے ہیں کہ کپتان نے اپوزیشن نہیں بلکہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کو تڑی لگائی ہے۔

Related Articles

Back to top button