کیا PMLN اور PPP اسمبلی کے باہر بھی اکٹھے ہونے والی ہیں؟


نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے پارلیمینٹ کے اندر مشترکہ حکمت عملی اپنا کر حکومت کو کامیابی سے ٹف ٹائم دیئے جانے کے بعد اب یہ امید کی جارہی ہے کہ دونوں جماعتیں پارلیمنٹ کے باہر بھی دوبارہ ہاتھ ملا کر ایک بار پھر سے اکٹھی ہو سکتی ہیں اور پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم میں باعزت واپسی کی دعوت بھی دی جا سکتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا یے کہ پارلیمنٹ میں مشترکہ حکومت مخالف حکمت عملی اپنانے کی وجہ سے حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ہے تاہم اسے گھر بھجوانے کے لیے نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو پارلیمنٹ کے باہر بھی ہاتھ ملانا ہو گا کیونکہ حکومت کو گرانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ جب پیپلزپارٹی پی ڈی ایم اتحاد کا حصہ تھی تو دونوں اپوزیشن جماعتوں نے ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹ کی سیٹ پر منتخب کروا لیا تھا حالانکہ قومی اسمبلی میں اکثریت حکومت کی تھی۔
اب سیاسی منظر نامے پر ایک مرتبہ پھر اپوزیشن جماعتیں آپسی ملاقاتوں میں مصروف ہیں اور مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لیے متحرک دکھائی دے رہی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر ایسا دباؤ دکھائی نہیں دیتا جو ایوانوں میں تبدیلی کا سبب بن سکے، لہذا حزب اختلاف کو پارلیمان کے باہر بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کو بڑے احتجاجی مظاہروں اور لانگ مارچ کے ذریعے گھر بھجوایا جاسکے۔ تاہم یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اختلافات بھلا کر مشترکہ جدوجہد پر متفق نہ ہو جائیں۔
واضح رہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بنائے گئے مشترکہ پلیٹ فارم پی ڈی ایم میں اختلافات کے باعث کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی نے تحفظات کے باعث علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ اب ایک بار پھر اپوزیشن متحد ہوتی دکھائی دے رہی ہے مگر ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اتحاد کتنا موثر ہوتا ہے، اس بارے میں تحفظات برقرار ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں بداعتمادی کے خاتمے کے لیے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ حال ہی میں قومی سلامتی کونسل کے ان کیمرہ اجلاس میں بھی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے مشترکہ موقف اپنایا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے گیارہ نومبر کو بلائے گئے مشترکہ اجلاس میں نیب قوانین میں ترمیم اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق قانون سازی بارے بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے سخت مؤقف اپنایا رھا جس کے بعد حکومت کو اجلاس مؤخر کرنا پڑ گیا۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں نے حکومت کی جانب سے مشترکہ اجلاس ملتوی کرنے کے عمل کو اپوزیشن کی جیت اور حکومت کی ہار قرار دیا ہے اور وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔
کپتان حکومت کے مخالفین اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے معاملات پر اپوزیشن کی جماعتیں پارلیمنٹ میں تو متحد ہوجاتی ہے لیکن باہر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرکے معاملات خراب کر دیتی ہیں جس کا فائدہ ہر بار حکومت کو ہوتا ہے کیونکہ اس طرح اسکے خلاف نہ تو لانگ مارچ پر اتفاق ہو پاتا ہے اور نہ ہی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔
پیپلزپارٹی والے دعویٰ کرتے ہیں کہ اسنے ہمیشہ اپوزیشن میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے اور سندھ میں حکومت ہونے کے باوجود دوسری جماعت کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک کے لیے تیار رہی لیکن مسلم لیگ ن صرف اپنا سیاسی فائدہ مدنظر رکھتی ہے۔ ان کے بقول پی ڈی ایم نے ن لیگ کو پنجاب میں مشترکہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی بلکہ الٹا پیپلز پارٹی کو ہی شو کاز نوٹس جاری کروا دیا، لہذا پی پی پی والوں کا کہنا ہے کہ جب تک نواز لیگ اپنا ایجنڈا واضح نہیں کرے گے دونوں جماعتوں کا پارلیمنٹ سے باہر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا مشکل ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے لوگ الزام لگاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ بن کر اور اسکا سہارا لے کر اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کرنا چاہتی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کے تحت اپوزیشن اتحاد کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ لیگی رہنما الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب میں نمبر گیم پوری نہ ہونے کے باوجود پی پی پی کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی شرط اس لیے رکھی گئی ہے کہ ن لیگ کو سیاسی طور پر پنجاب میں کمزور کیا جائے۔ لیگی رہنماؤں کے بقول مسلم لیگ ن عوامی مفادات کی سیاست کرنا چاہتی ہے اور اسکا ایجنڈہ واضح ہے کہ شفاف انتخابات کے ذریعے کامیاب ہونے والی جماعت اقتدار میں آئے اور عوامی مسائل حل کرے۔ لیگی رہنما شکوہ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایوانوں میں تو اسکے ساتھ متحد ہو جاتی ہے لیکن باہر عوامی سطح پر اسکے ساتھ مل کر حکومت مخالف مہم چلانے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے اپنے سیاسی مفادات ہیں۔ نون لیگ والوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی والے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوجاتے ہیں اور کبھی دور جبکہ انکی جماعت اپنے ایک بیانیے پر مستقل قائم ہے۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں جس طرح ایوان میں متحد ہیں باہر بھی ایسے ہی مشترکہ جدوجہد کی کوشش کریں تو کامیاب ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو سمجھ آگئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اکیلے کامیاب نہیں ہوسکتا، اس لیے امکان یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں اتحاد نہ بھی ہو تو کوئی سمجھوتہ ضرور ہو جائے گا جس کے تحت کسی بھی معاملے پر دونوں کی مشترکہ حکمت عملی بن سکتی ہے۔ سہیل کے بقول اگرچہ کپتا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک پیج والا معاملہ ختم ہونے کے بعد حالات خراب ہیں مگر ابھی حکومت کے لیے کوئی بہت خطرناک صورت حال بنتی دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی حکومت فوری ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو معیشت اور بد انتظامی کی صورتحال ہے اس میں حزب اختلاف کو مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام جماعتیں جو اپوزیشن اتحاد میں شامل ہیں، ان کے تحفظات اور خدشات دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر متحرک ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ جس طرح پارلیمنٹ میں حکومت کو اپوزیشن نے مشترکہ شکست دی اسی طرح قانون سازی اور عوامی مفادات کے معاملات میں مل کر چلنا ناگزیر ہے۔ اس وقت عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں اور حکومت سے مایوس ہونے کے ساتھ اپوزیشن کے کردار کو بھی جانچ رہے ہیں کہ کون مفادات کی سیاست کر رہا ہے اور کون عوامی مسائل کے لیے بے چین ہے۔ جب تک اپوزیشن متحد نہیں ہوگی حکومت کی ناکامیوں کی سزا عوام کو ملتی رہے گی اور عوام حکومت کے ساتھ مفاد کے لیے کام کرنے والی اپوزیشن سے بھی امید نہیں رکھیں گے، جس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا۔

Related Articles

Back to top button