نیتن یاہو کا 12سالہ اقتدار ایک ووٹ سے ختم


بلاآخر 13 جون 2021 کے روز فلسطینیوں کے ولن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے 12 سالہ طویل اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور اسرائیلی پارلیمینٹ نے صرف ایک سیٹ کی اکثریت سے نئی اتحادی حکومت کے قیام کی منظوری دے دی۔ حالیہ انتخابات میں صرف سات نشستیں حاصل کر کے پانچویں نمبر پر رہنے والی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت کے سربراہ نفتالی بینیٹ 8 اتحادی جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر اسرائیل کے نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ یامینیا پارٹی کے سربراہ نفتالی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ سیاسی تعطل کے دو سالوں میں چار الیکشن میں ووٹ دینے والی قوم کو متحد کریں گے۔ اپنے خطاب 49 سالہ نفتالی بینیٹ نے کہا کہ ’یہ غم کا نہیں بلکہ خوشی کا دن ہے کیونکہ جمہوریت میں حکومت کی تبدیلی ہوتی ہے۔‘
مختلف جماعتوں کی اقتدار کی شراکت کے معاہدے کے تحت یامینا پارٹی کی سربراہی کرنے والے نفتالی بینیٹ، ستمبر 2023 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے جبکہ مزید دو سالوں کے لیے اقتدار سینٹرسٹ یش اتید کے رہنما، یائیر لاپڈ کے حوالے ہو گا۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئی حکومت چار برس چل پائے گی کیونکہ اسے پارلیمینٹ میں صرف ایک سیٹ کی معمولی برتری حاصل ہے۔
دوسری جانب پارلیمینٹ میں بحث کے دوران نتن یاہو نے دروی کیا ہے کہ وہ جلد واپس اقتدار میں آ جائیں گے۔ دوسری جانب فلسطینیوں کے نمائیندوں نے نئی حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’یہ اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہمارا موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ 1967 میں یروشلم کے دارالحکومت کی حیثیت سے سرحدوں پر واقع فلسطینی ریاست ہو۔ غزہ پر کنٹرول رکھنے والے اسلام پسند گروہ حماس کے ایک ترجمان نے کہا یہ ایک قبضہ اور نوآبادیاتی وجود ہے ، جس سے ہمیں اپنے حقوق واپس لینے کے لیے طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے۔ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم کو مبارکباد کا پیغام بھجوا چکے ہیں اور انھوں نے ان کے ساتھ کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ نیتن یاہو سب سے طویل عرصے تک اسریئل کے وزیر اعظم رہے ہیں جو سالوں تک سیاسی افق پر چھائے رہے۔ نتن یاہو لیکود پارٹی کے رہنما برقرار رہتے ہوئے حزبِ اختلاف میں رہیں گے۔ انھوں نے نئی حکومت کو ’فراڈ اور ایک خطرناک اتحاد‘ قرار دیتے ہوئے بہت جلد اسے ’ختم کرنے’ کے عزم کا اظہار کیا۔ دریں اثنا نئی حکومت ان کے خلاف رشوت خوری اور دھوکہ دہی کے الزامات پر کیسز چلانے کی تیاری کر رہی ہے۔ نامزد وزیر اعظم نفتالی نے شکست خوردہ نتن یاہو کے گھر کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ ’اشتعال انگیزی‘ سے بچیں۔
انھوں نے کہا کہ میں نے نتن یاہو کی جانب سے متعدد الزامات کے بعد بھی خود پر کنٹرول رکھا ہے جو کہ ضروری یے۔ خیال رہے کہ 12 برس میں نتن یاہو نے پانچ مرتبہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ انھوں نے اپریل 2019 میں ایک الیکشن کروایا لیکن نئی مخلوط حکومت تشکیل دینے کے لیے خاطر خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد دو اور الیکشنز ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ تیسرا انتخاب نیشنل یونیٹی کی حکومت کے حق میں آیا تو نتن یاہو نے اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنما بینی گانٹز کے ساتھ اقتدار بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ دسمبر 2020 میں ختم ہو گیا، جسکے نتیجے میں چوتھے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگرچہ لیکود پارٹی 120 نشستوں والی پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن نتن یاہو دوبارہ حکومت کے لیے اتحاد بنانے میں ناکام رہے اور یہ کام لاپیڈ کے حوالے کیا گیا جن کی پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔
یاد رہے کہ اس مرتبہ نیتن یاہو کے اقتدار میں رہنے کی مخالفت صرف بائیں بازو اور سینٹر میں ہی نہیں بلکہ دائیں بازو کی جماعتوں میں بھی بڑھ گئی ہے جو عام طور پر نظریاتی طور پر لیکود سے جڑے ہوئے ہیں جس میں یامینا بھی شامل ہے۔
اگرچہ نفتالی کی یامینا پارٹی انتخابات میں صرف سات نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہی تاہم مخلوط حکومت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اس کی حمایت اہم تھی۔ ہفتوں کے مذاکرات کے بعد لاپیڈ پارٹیوں کے اُس اتحاد میں یامینا کو شامل کرنےمیں کامیاب رہے جس کا واحد مشترکہ مقصد مسٹر نتن یاہو کو عہدے سے ہٹانا تھا۔
عددی اکثریت کے لیے درکار 61 نشستوں کے ساتھ آٹھ گروپوں سے وابستہ معاہدے پر 2 جون کو ڈیڈ لائن ختم ہونے سے محض آدھا گھنٹہ قبل دستخط کیے گئے تھےجس نے نتن یاہو کی قسمت پر مؤثر طریقے سے مہر لگا دی۔
کہا جا رہا ہے کہ نفتالی بینیٹ کی حکومت اسرائیل کی 73 سالہ تاریخ میں آنے والی حکومتوں کے برعکس ہوگی۔ اس اتحاد میں ایسی جماعتیں ہیں جن میں وسیع نظریاتی اختلافات ہیں اور ممکنہ طور پر سب سے نمایاں طور پر پہلی آزاد عرب پارٹی بھی شامل ہے جو ممکنہ حکمران اتحاد ’رام‘ کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس میں آٹھ خواتین وزرا کی ریکارڈ تعداد بھی متوقع ہے۔ رام اور بائیں بازو کی غیر عرب اسرائیلی جماعتوں کو شامل کرنے کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں جیسے معاملات پر تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یامینا پارٹی اور ایک اور دائیں بازو کی جماعت ‘نیو ہوپ’ اسرائیلی مقبوضہ علاقے غربِ اردن میں اسرائیلی بستیاں بسانے کی حق میں ہیں، اس کے علاوہ سماجی پالیسیوں پر بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ کچھ جماعتیں ہم جنس پرستوں کے حقوق کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں جیسا کہ جنسی شادیوں کو تسلیم کرنا، اسلامی جماعت، رام اس کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ کچھ جماعتیں مذہبی پابندیوں میں نرمی لانا چاہتی ہیں۔
نفتالی بینیٹ نے اشارہ کیا ہے کہ ان کی حکومت متنازع معاملات سے گریز کرتے ہوئے ان معاملات پر زیادہ توجہ دے گی جہاں معاہدہ ممکن ہے مثلا معاشی معاملات یا کرونا وائرس کی وبا۔ انھوں نے حال ہی میں کہا کہ ’کسی کو بھی اپنا نظریہ ترک نہیں کرنا پڑے گا، لیکن سب کو اپنے کچھ خوابوں کی تعبیر کو ملتوی کرنا پڑے گا … ہم اس بات پر توجہ دیں گے کہ کیا حاصل کیا جا سکتا بجائے اس پر بحث کہ کیا نہیں کیا جا سکتا۔‘

Related Articles

Back to top button