سیلاب سے متاثرہ پولیو ورکرز کیلئے 25 کروڑ روپے کا اعلان

سندھ اور بلوچستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے پولیو ورکرز کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے جن کے نقصانات کے ازلے کیلئے حکومت نے 25 کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر دیا ہے۔وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے پولیو ورکرز کی خدمات کو سراہا جنہوں نے تباہ کن سیلاب کے باوجود امدادی سرگرمیوں اپنی خدمات جاری رکھی، میں پولیو ورکرز کی ہمت اور جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں جو نقصانات برداشت کرنے کے باوجود اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لیے آگے آئے اور سیلاب متاثرین کے لیے امدادی کارروائیوں میں حکومت کا ساتھ دیا۔

وزیر صحت نے کہا کہ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پولیو ورکرز کو معاوضہ دے، مشکل وقت میں انہیں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ پولیو ورکرز ہماری اولین ترجیح ہیں، ان کی خدمات انمول ہیں۔

ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ 3 لاکھ 50 ہزار فرنٹ لائن عملے کی شناخت کرنا اور ان کی تفصیلات کو دستاویزی شکل دینا بہت بڑا کام تھا، انہوں نے مزید کہا کہ پولیو ورکرز پر سیلاب کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تمام صوبوں میں خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

پاکستان پولیو پروگرام کے جائزے کے مطابق تقریباً 12 ہزار 500 ہیلتھ ورکرز سیلاب سے متاثر ہوئے جن کی اکثریت کا تعلق صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تھا، خیبرپختونخوا کے پولیو ورکرز نے خبردار کیا ہے کہ اگر برطرف ملازمین کو بحال نہ کیا گیا تو وہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہوں کے باہر احتجاج کریں گے۔

امیونائزیشن توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے ملازمین نے نیشنل پریس کلب میں نیوز کانفرنس کے دوران صوبائی حکومت کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے 2 روز کی ڈیڈ لائن دی۔برطرف ملازمین امیونائزیشن توسیعی پروگرام کے ہیلتھ ٹیکنیشن تھے جنہوں نے وبائی مرض کے دوران کووڈ19 سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے والے مراکز صحت میں خدمات انجام دیں۔

محکمہ صحت خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے دعویٰ کیا کہ انہیں گزشتہ ایک سال سے تنخواہیں نہیں ملیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ان کے پاس پی ٹی آئی چیئرمین کی اسلام آباد کی رہائش گاہ بنی گالہ اور لاہور میں زمان پارک کے باہر احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

ہیلتھ ٹیکنیشنز کے صوبائی صدر محمد ثاقب نے کہا کہ ملازمین کا تقرر میرٹ پر کی گیا اور متعدد ملازمین کورونا وائرس سے متاثر ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم بہت مشکل معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور گھر چلانا ناممکن ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت خالی خزانے کا الزام لگا رہی ہے تو کیا برطرف ملازمین مالی بحران کے ذمہ دار ہیں؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ برطرفی کے نوٹس واپس لیے جائیں اور ان کی ایک سال کی تنخواہ جلد سے جلد ادا کی جائے۔

پاکستان میں پولیو وائرس ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان اور افغانستان دنیا کے آخری ممالک ہیں جو تاحال پولیو کا شکار ہیں، پاکستان میں 2022 میں پولیو کیسز میں اضافہ دیکھا گیا جب کہ 2021 میں ایک پولیو کیس سامنے آنے بعد 2022 میں اب تک خطرناک وائرس کے 20 کیسز سامنے آچکے ہیں۔خیبر پختونخوا کا جنوبی علاقہ مستقل معذوری کا باعث بننے والے خطرناک وائرس کا مرکز بنا رہا اور ملک میں رپورٹ ہونے والے تمام 20 مثبت کیسز کا تعلق اس ہی خطے سے تھا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شمالی وزیرستان میں 17، لکی مروت میں 2 اور جنوبی وزیرستان میں ایک کیس رپورٹ ہوا۔

مختلف ناکامیوں اور مشکلات کے باوجود عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ ملک سے پولیو کے خاتمے کا پروگرام درست سمت میں گامزن ہے۔رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف نے امید ظاہر کی تھی کہ 2023 کے آخر تک خطرناک وائرس کا ملک سے خاتمہ ہو جائے گا۔

Related Articles

Back to top button