پی آئی اے کا جہاز 32 برس بعد بھی لینڈ کیوں نہیں کر پایا؟

32 سال قبل گلگت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے والے پی آئی اے کے بدقسمت فوکر جہاز اور اس میں سوار 54 افراد کا آج دن تک سراغ نہیں مل سکا۔

25 اگست 1989 کی صبح گلگت سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی فلائیٹ نمبر 404 پر مسافروں اور عملے کے ارکان سمیت کُل 54 افراد سوار تھے، جن میں پانچ شیرخوار بچے بھی تھے۔ اِس فلائیٹ کو گلگت سے روانہ ہوئے 32 برس بیت چکے ہیں مگر یہ اب تک لاپتہ ہے۔ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور کن حالات میں حادثہ پیش آیا۔ حکام نے طیارے کے ملبے کو ڈھونڈنے کی طویل مگر ناکام کوششوں کے بعد اس فلائیٹ پر سوار تمام افراد کو مردہ قرار دے دیا تھا۔ جب بی بی سی نے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ قائم کر کے فلائیٹ نمبر 404 کے حوالے سے معلومات لینا چاہیں تو بتایا گیا کہ یہ بہت پرانا واقعہ ہے، اس لیے اس حوالے سے کوئی تحقیقاتی رپورٹ ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔ دونوں اداروں کے مطابق وہ اس فلائیٹ کے حوالے سے کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کے مطابق فلائٹ نمبر 404 ایک فوکر ایف 27 فرینڈ شپ طیارہ تھا جس نے گلگت سے 25 اگست 1989 بروز جمعہ 7:36 منٹ پر پرواز بھری تھی۔ 7:40 منٹ پر طیارے کے عملے کی جانب سے کنٹرول روم کو بتایا گیا کہ وہ توقع کررہے ہیں کہ وہ 7:59 منٹ پر سطح سمندر دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہوں گے۔ عملے کی طرف سے کنٹرول روم کے ساتھ یہ آخری رابطہ تھا۔ اس دور میں میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق طیارہ چند منٹ ہی فضا میں رہنے کے بعد غائب ہو گیا تھا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ طیارہ لاپتہ ہونے کے بعد پاکستان کے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں کم از کم سات سو افراد، جن میں مہم جو اور علاقے سے واقفیت رکھنے والے مقامی افراد بھی شامل تھے، نے طیارہ تلاش کے آپریشن میں حصہ لیا جو کئی روز جاری رہا۔ اس آپریشن میں پاکستان فضائیہ کے چار ہیلی کاپٹرز، دو سی 130 اور پی آئی اے کے دو طیاروں نے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں تلاش کے آپریشن میں حصہ لیا۔

پاکستانی حکام کی درخواست پر انڈین ایئر فورس نے بھی اپنی حدود میں طیارے کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے آپریشن کیا تھا۔ اس دور میں اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تلاش کا کام زیادہ تر دنیا کے دشوار ترین پہاڑ نانگا پربت اور اس کے ارد گرد کیا گیا تھا۔ اس وقت نانگا پربت پر موجود دو برطانوی مہم جوؤں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انھوں نے نانگا پربت پر انتہائی نچلی پرواز کرتے ہوئے ایک طیارے کو دیکھا تھا۔

پاکستان ایئر فورس کے سابق فلائنگ افسر سردار فدا حسین کے مطابق مذکورہ حادثے سے متعلق کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ جس زمانے میں یہ حادثہ پیش آیا تھا اس وقت ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں تھی کہ جہاز کے ملبے کی ایک مشکل علاقے میں نشان دہی ہو سکتی، اب صرف امکانات ہی پر بات ہو سکتی ہے کیونکہ نہ تو ملبہ ملا اور نہ ہی بلیک باکس۔ سردار فدا حسین کے مطابق پہلے رابطے کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

عموماً اگر طیارے میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو پائلٹ فوراً سب سے پہلا کام ایئر ٹریفک کنٹرول کو آگاہ کرنے کا کرتے ہیں۔ چونکہ ایسا کوئی پیغام نہیں دیا گیا اس لیے ممکنہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ شاید پیش آنے والا حادثہ انتہائی اچانک اور غیر متوقع تھا جس کے باعث پائلٹ کو ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ قائم کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ جہاز کا مواصلاتی نظام ہی فیل ہوگیا ہو جس کے باعث رابطہ کرنا ممکن ہی نہ رہا ہو۔ فدا حسین کہتے ہیں اگر اس زمانے کی کچھ شواہد اکھٹے کیے جاتے یا کوئی تحقیقاتی رپورٹ موجود ہوتی جس میں کوئی اشارہ یا ثبوت دستیاب ہوتا تو اس کی بنیاد پر آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی سے تلاش کے عمل کو بڑھانے کی کوئی توقع بھی ہوتی مگر اب یہ ناممکن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نانگا پربت کے گلیشیئر اور برف پر طیارہ تلاش کرنا آسان نہیں رہا ہو گا۔

جب گلگت کے رہائشی شاہد اقبال سے پی آئی اے کی بدقسمت فلائیٹ 404 کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا کہ میرے والد عبد الرزاق اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنی بیٹی، داماد اور کمسن نواسی کو یاد کرتے رہتے تھے۔ اپنی زندگی میں انھوں نے ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر افغانستان اور انڈیا کے ساتھ موجود پاکستان کے سرحدی علاقوں تک اس طیارے کے ملبے کو تلاش کرنے کی ناکام کوششیں کیں جس میں یہ سب سوار تھے۔عبدالرزاق یہی کہتے کہتے دنیا سے چلے گئے کیا جہاز یا اس کا ملبہ سوئی ہے جو ڈھونڈنے والوں کو نظر نہیں آ رہا؟

Related Articles

Back to top button