سعودی عرب اور ایران سے تعلقات میں توازن لانے کا فیصلہ

پاکستانی پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ خارجہ تعلقات میں توازن لانے کے لیے سعودی عرب کی طرف جھکاؤ کی پرانی پالیسی کو بیلنس کرتے ہوئے ایران کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اکثر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کئی قدریں مشترک ہونے کے باوجود ان کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کیوں رہتا ہے اور کیا ان دونوں کے تعلقات خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تابع ہیں؟َ
یاد رہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے مراسم کی وجہ سے اسلام آباد اور تہران کے باہمی تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں سفارتی ذرائع کا کہنا یے کہ پاکستان اب کوشش کر رہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں توازن رکھا جائے۔ البتہ پاکستانی حکام توقع کر رہے ہیں کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ دورہ تہران کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات پائیدار خطوط پر استوار کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی کے سوشل سائنسز شعبے کے سابق سربراہ اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر نذیر حسین کہتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کا اسٹرٹیجک محل و قوع عالمی طاقتوں کے لیے اہم ہونا بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد کردہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے تہران کو اسلام آباد کی سخت ضرورت ہے۔ دوسری جانب ایران سے ایک طویل بارڈر کی وجہ سے پاکستان کی سرحدی علاقوں کی تجارت اور کاروبار کا انحصار ایران پر ہے۔
ڈاکٹر نذیر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مستحکم کرنے میں اقتصادی، سیاسی اور اسٹرٹیجک نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔اُن کے بقول خطے میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے امکانات موجود ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک سے متعلق پالیسیاں بھی ایران اور پاکستان کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
لیکن تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ایران اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی صورت میں پاکستان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایران کے زیادہ قریب ہو گا تو بعض طاقت ور عرب ممالک پاکستان سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے معاملے میں پاکستان کا کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں ہے اور پاکستان سوچ سمجھ کر اپنے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایران، سعودی عرب مخاصمت میں کسی ایک کا ساتھ دینے کی بجائے توازن رکھنے کی کوشش کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا یے کہ پاک ایران سرحد پر تین طرح کے مسائل ہیں جن میں غیر قانونی تجارت، انسانی اسمگلنگ اور سرحد کے آر پار بعض شدت پسند عناصر کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ماضی میں جنداللہ اور جیشِ عدل جیسی شدت پسند تنطیموں اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اسلام آباد اور تہران کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ رہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور ایران نے بارڈر سیکیورٹی کو بہتر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے لیکن اس کے باوجود بعض اوقات سرحد پار شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں تناؤ کا سبب بنتی ہیں۔
حال ہی میں پاکستانی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے دوران ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ بارڈر سیکیورٹی دونوں ملکوں کے لیے باعثِ تشویش ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون ضروری ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خطے کی بعض طاقتیں پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب نہیں دیکھنا چاہتیں لیکن پاکستان اور ایران کو اپنے تعلقات کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ان کے خیال میں دونوں ممالک کی مجبوری ہے۔ ان کے بقول پاکستان ، ایران اور ترکی کے درمیان ریل لنک بحال ہو رہے ہیں جب کہ دوسری جانب ایران چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھی شامل ہو رہا ہے۔
اس معاملے پر تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین نے ایران کے ساتھ لگ بھگ چار سو ارب ڈالرز کا ایک طویل مدتی معاہدہ کیا ہے تاہم پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے ہے۔ ایک جانب یہ تاثر رہا ہے کہ گودار اور چاہ بہار بندرگاہ ایک دوسری کی حریف ہیں لیکن تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ گوادر اور چاہ بہار کے درمیان بہت فرق ہے۔ گودار کے مقابلے میں چاہ بہار کی صلاحیت بہت کم ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ا گرچہ ماضی میں افغانستان کے معاملے پر ایران اور پاکستان کے درمیان بعض امور پر اختلافات رہے ہیں۔ لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے۔ان کے بقول اگر افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور ایران کا مزید اتفاق رائے ہوا تو پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ رحیم اللہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور ایران میں مشاورت کا عمل بھی جاری ہے۔ اسلام آباد اور تہران یہ چاہتے ہیں کہ افغان فریقین کے درمیان سیاسی تصفیہ طے پا جائے۔ اس۔معاملے میں ڈاکٹر نذیر کا کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے ہمسایہ ممالک کے طور پر اہم ہیں۔ پاک ایران بارڈر 900 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے جہاں دونوں ممالک نے سرحد کے آر پار دو طرفہ تجارت کے لیے تین راہداریاں بھی قائم کیں ہوئی ہیں۔ جب کہ ایران پاکستان کے جنوبی شہر گودار کے لیے ایک سو میگاواٹ بجلی بھی فراہم کر رہا ہے۔
پاکستان کی کاروباری برادری کے نمائندے ظفر موتی والا کا کہنا ہے کہ ایران پر عائد امریکی تعزیرات کی وجہ سے پاک ایران تجارت بھی متاثر ہوئی بلکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے جو کہ زرداری دور میں شروع ہوا تھا۔ موتی والا کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں تو نہ صرف گیس پائپ لائن منصوبہ بحال ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان اور ایران کے کے تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کی تاجر برادری ان مشکلات کا حل چاہتی ہے جس سے باہمی تجارت کو زیادہ آسان اور سہل بنا سکے۔
یادر ہے کہ پاکستان اور ایران نے چند سال قبل اپنے دو طرفہ تجارتی حجم کو 2021 تک پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان بارٹر تجارت محدود پیمانے پر جاری ہے لیکن پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران بین الاقوامی تجارت بہت ہی محددو ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button