کیاعمران خان بچ جائیں گے یا گھر جائیں گے؟

1973 میں عدم اعتماد کی شق کو آئین کا حصہ بنائے جانے کے بعد اب تک تقریبا 50 برسوں میں پانچ تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہیں جن میں سے تین وزرائے اعظم کے خلاف دائر ہوئی تھیں جبکہ دو سپیکرز کے خلاف تھیں۔ لیکن کسی بھی وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔ تاہم شاید ی

ہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پاس ہو جائے یا وہ اس سے پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے۔

سینئر صحافی عبادالحق اپنی تازہ تحریر میں بتاتے ہیں کہ اب تک پاکستان کی تاریخ میں تین وزرائے اعظم کے خلاف تحاریکِ عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ تحریک عدم اعتماد کی آئینی شق کو پہلی مرتبہ ایک فوجی صدر کے دور میں استعمال کیا گیا جب 1985 میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے سپیکر فخر امام اسکا پہلا نشانہ بنے اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انکی جگہ چودھری حامد ناصر چھٹہ نئے سپیکر قومی اسمبلی بنے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں 16، 16 برس کا وقفہ رہا ہے۔ یہ لیکن سابق فوجی صدر ضیا الحق نے سپیکر کی طرح تب کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد کا سہارا نہیں لیا بلکہ آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اپنا صدارتی استحقاق استعمال کیا اور اسمبلی توڑتے ہوئے وزیر اعظم کو بھی برطرف کردیا۔

عبادالحق بتاتے ہیں کہ 1988 میں ضیاء الحق کی ایک طیارہ حادثے میں موت کے بعد ہونے والے الیکشن کے ایک سال بعد ہی تب کی متحدہ اپوزیشن نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی لیکن یہ بھی کامیاب نہ ہو سکی۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی طرح تب بھی اپوزیشن کے 86 ارکان قومی اسمبلی نے ہی تحریک پر دستخط کیے تھے۔ تب کی حزب مخالف کو بے نظیر بھٹو کے حق۔میں پڑنے والے 124 ووٹوں کے مقابلے میں 107 ووٹ ملے تھے اور یوں تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ لیکن بےنظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم کی ناکامی کے ٹھیک 10 ماہ بعد تب کے صدر اسحاق خان نے اپنے پیش رو جنرل ضیا الحق کی طرح قومی اسمبلی توڑ دی اور وزیر اعظم کو برطرف کردیا۔

سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد لگ بھگ 16 برس تک دوبارہ کسی وزیر اعظم کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں آئی البتہ اسی دوران دو مرتبہ بےنظیر بھٹو اور ایک مرتبہ نواز شریف کی حکومت کو قومی اسمبلی تحلیل کر کے بر طرف کیا گیا۔ دراصل فوجی اسٹیبلشمنٹ یہ بات جان گئی تھی کہ کسی بھی وزیر اعظم کو عدم اعتماد سے اقتدار سے نکالنا کافی مشکل کام ہے لہذا جنرل ضیا نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صدر اور وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا آئینی اختیار دیا گیا۔ ضیا کی عبرتناک موت کے بعد بھی صدر ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ہی آدمی ہوتا تھا چاہے وہ سویلین ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو غلام اسحاق خان نے اور دوسری حکومت کو انکی اپنی ہی جماعت کے صدر فاروق لغاری نے صدارتی اختیار کے ذریعے ختم کیا۔

بعد ازاں نواز شریف کی پہلی حکومت کو بھی صدر غلام اسحاق خان نے 18ویں ترمیم کے صدارتی اختیار کے تحت 1993 میں رخصت کیا۔ جون 2003 میں قومی اسمبلی کے سپیکر چودھری امیر حسین کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی لیگل فریم ورک آرڈر کو آئین کا حصہ قرار دینے پر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ تاہم اس تحریک کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 2006 میں ایک بار پھر ایک دوسرے فوجی صدر مشرف کے دور میں بھاڑے پر بھرتی کیے گے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تاہم یہ بھی کامیاب نہ ہو سکی اور مشرف کی مدد سے شوکت عزیز اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہے۔

شیروں کی قوم کا سردار نواز شریف جیسا گیدڑ ہو گا تو وہ ہار جائے گی

تاہم جب 2008 کے الیکشن کے بعد آصف زرداری مشرف کو نکالنے کر برسر اقتدار آئے تو انہوں نے نواز لیگ اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی مدد سے اپریل 2010 میں قومی اسمبلی توڑنے کے صدارتی اختیار کو ختم کر دیا۔ اب اپوزیشن ایک مرتبہ پھر ایک وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئی ہے جس کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے والے عمران خان ہیں۔ یاد رہے کہ 2002 میں 1973 کے آئین کی بحالی کے بعد موجودہ اسمبلی چوتھی ہے۔ ماضی کی نسبت اب تک تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی معیاد مکمل کی ہے لیکن وزرائے اعظم اپنے منصب کی مدت مکمل نہیں کر سکے۔ 1985 سے 1999 تک نہ تو اسمبلی اپنی معیاد مکمل کر سکی اور نہ ہی کوئی وزیر اعظم آئینی مدت پوری کرسکا۔

سینئیر صحافی عبادالحق کے مطابق، سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے اقتدار میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی نے تین وزرائے اعظم دیکھے۔ ان میں میر ظفر اللہ خان جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز شامل ہیں۔ 2008 اور 2013 کی اسمبلیوں نے بھی معیاد پوری کی لیکن وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کے نااہل ہونے پر راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بننے جبکہ 2013 میں نواز شریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم ہونے پر مسلم لیگ ن نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم چنا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت لائی گئی ہے جب انکی حکومت کی معیاد مکمل ہونے میں ڈیڑھ برس کا عرصہ باقی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے رائے ہے کہ مخلوط اور سادہ اکثریت والی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانا زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ اپوزیشن والے مطلوبہ عددی تعداد کی خاطر حکومتی ارکان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتیں حکومتی اراکین سے زیادہ اتحادی جماعتوں پر توجہ دے رہی ہیں جنکی تعداد بیس بنتی ہے جبکہ اپوزیشن کو صرف دس ووٹوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان شاید پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں جن کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے۔ لیکن اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کردیں اور انہیں اپنی شکست یقینی نظر آئے تو وہ سبکی سے بچنے کے لیے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں۔

Will Imran Khan survive or go home? Urdu News

Related Articles

Back to top button