پاکستانی دلیپ کمار کہلانے والے طلعت حسین لیجنڈر ایکٹر کیسے بنے ؟

اداکاری میں اپنے تاثرات بھرے وقفوں اور صدا کاری میں سحر پیدا کر دینے والے طلعت حسین اپنی آواز کے ساتھ ساتھ چہرے کے تاثرات سے بھی کھیلنا جانتے تھے۔ انہوں نے اپنے طویل فنی سفر میں اپنی اداکاری کے جوہر جوانی میں ہی منوا لیے تھے۔
اپنے منفرد اسٹائل کی وجہ سے طلعت حسین ہر دور میں مقبول رہے۔ان کا مکالمہ بولتے بولتے رک جانا ان کا ایک ایسا اسٹائل تھا جسے کئی افراد نے کاپی کیا۔طلعت حسین نے سن 1970 میں نوعمری میں ہی اپنی آواز کا جادو جگانا شروع کر دیا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے بعد وہ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں جلوہ افروز ہوئے اور انہوں نے بڑی اسکرین پر بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
طلعت حسین اپنی آواز کے ساتھ اپنے چہرے کے ثاثرات سے بھی خوب کھیلنا جانتے تھے۔ ٹیلی وژن کے لیے بنائے گئے ان کے مختلف ڈراموں میں ان کی اداکاری ہمیشہ ہی منفرد رہی۔انہوں نے اپنے طویل کیریئر میں مختلف قسم کے کردار ادا کیے۔ طلعت حسین کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ‘میتھیڈ ایکٹر‘ تھے۔ پہلے وہ کردار کو سمجھتے تھے اور پھر اس میں ڈھل جاتے تھے۔
طلعت حسین کو ناوریجیئن فلم ‘امپورٹ ایکپسورٹ‘ میں بہترین معاون اداکار کی کیٹیگری میں سن 2006 میں امانڈا ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس ایوارڈ کو ‘اسکینڈے نیوین آسکر‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔انہیں سن 1982 میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی جبکہ2021 میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔اپنی فنی خدمات پر صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات رکھنے والے طلعت حسین کی ذاتی زندگی کے اتار چڑھاؤ کسی فلمی کہانی سے کم دلچسپ نہ تھے۔
طلعت حسین کا جنم 1942 میں پٹیالہ میں کشمیری نژاد خاندان میں ہوا۔ ان کا خاندان لاہور کے علاقے چوبرجی کا رہنے والا تھا۔ والد اخلاق حسین وارثی ملازمت کے لیے پٹیالہ میں مقیم تھے۔والد پٹیالہ چھوڑ کر دلی آگئے۔ جہاں کچھ عرصہ فلموں میں قسمت آزمائی کے بعد دوبارہ سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔طلعت حسین دلی کے مشہور انگریزی سکول بٹلر ہائی سکول میں داخل ہوئے۔ مگر بدقسمتی سے ٹائیفائیڈ نے آن لیا۔ اگلے سات برس مسلسل اسی بیماری اور نقاہت کے باعث وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔بیماریوں سے نبرد آزما طلعت حسین نے 14 برس کی عمر میں پہلی جماعت میں داخلہ لیا۔ اپنی ذہانت اور محنت سے ابتدائی عمر میں سکول نہ جانے کی کمی پوری کر لی۔
اس دوران ان کا خاندان تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہو چکا تھا۔
دلی میں طلعت حسین کے گھر دولت کی ریل پیل تھی۔ کام کاج کے لیے نوکر اور رہائش کے لیے اعلی حویلی کے مالک تھے۔ان کے خاندان نے ہجرت کی تو قیمتی ساز و سامان سے بھرا ہوا صندوق غلطی سے کراچی کے بجائے راولپنڈی چلا گیا۔ والد کی بسیار کوششوں کے باوجود سامان بازیاب نہ ہو سکا۔ جسے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے سرکاری نوکری کو خیرباد کہہ کر ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں نوکری کر لی۔
طلعت حسین سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریڈیو میں صدا کاری بھی کرتے تھے۔ میٹرک میں تھے کہ والد کی بیماری معاشی تنگدستی لے آئی۔انہیں نوکری پر مجبور ہونا پڑا۔ طلعت نے 60 روپے ماہوار پر سینما ہاؤس میں گیٹ کیپر کی ملازمت اختیار کی۔انگریزی زبان پر استعداد کی وجہ سے کچھ عرصے بعد انہیں بکنگ کلرک کی جگہ مل گئی۔ وہ دن کو سکول جاتے اور شام کو ریڈیو اور سینما کی نوکری ساتھ ساتھ چلتے۔
الفاظ کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ، کہاں ٹھہرنا ہے، کہاں زور دینا ہے اور آواز کے ذریعے جذبات نگاری کا فن طلعت حسین نے ریڈیو سے سیکھا۔ان کی اصل خوبی مکالمے کے درمیان لمبے لمبے مگر پرتاثیر وقفے ہوا کرتے تھے۔ جو دیکھنے والوں کو ڈرامے کے ماحول اور کہانی کے ساتھ گویا باندھ کر رکھتے تھے۔
طلعت حسین کی فنی زندگی ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم اور تھیٹر کے گرد گھومتی تھی۔ تھیٹر میں اداکاری کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی ۔ ’خالد کی خالہ‘ ایک سٹیج پلے تھا جس میں انہوں نے بیک وقت اداکاری اور ہدایت کاری کی۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈرامے ’پرچھائیاں‘ میں ایک مصور کا رول یادگار بن گیا اسی طرح ’تعمیر‘ میں ان کی فنی جہت بلندیوں پہ نظر آتی ہے۔بانی پاکستان محمد علی جناح پر بننے والی فلم ’جناح‘ میں ان کا کردار جذبات اور ولولے سے بھرپور تھا۔
تھیٹر اور انگریزی زبان پر دسترس کے باعث انہوں نے لندن کی ’اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘ میں اداکاری کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لندن میں تعلیم کے اخراجات کے ساتھ ساتھ انہوں نے کراچی میں خاندان والوں کی کفالت بھی کرنی تھی۔ابتدا میں انہوں نے بی بی سی کے پروگراموں میں جز وقتی کردار ادا کرنا شروع کیے۔ طلعت حسین کی اہلیہ رخشندہ کے لندن آنے کے بعد اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے ایک ہوٹل میں ملازمت اختیار کی۔ہفتے میں تین دن کام کرنا ہوتا تھا۔ جمعہ کو برتن دھوتے اور ہفتہ اور اتوار کو ویٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔پاکستان میں ناموری اور پہچان کے بعد لندن میں ویٹری کی نوکری کا فیصلہ ان کے لیے آسان نہ تھا۔
یہ نوکری شروع میں ان کی شخصیت کے لیے توڑ پھوڑ کا باعث تھی مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اندرونی کیفیات پر قابو پا لیا۔
طلعت حسین کے جداگانہ انداز اور تاثرات بھری اداکاری نے فلم، ٹیلی ویژن اور تھیٹر میں منفرد مقام دلوایا۔ مگر ریڈیو سے ان کی وابستگی میں ذاتی اور جذباتی وجوہات پائی جاتی تھی۔اس کی ایک وجہ ان کی والدہ کا ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونا بھی تھا، جن سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔ ان کی والدہ کی ایک عادت طلعت حسین کی پٹائی کرنا بھی تھی۔ ان کے مطابق آخری بار وہ 29 برس کی عمر میں والدہ سے پٹے تھے۔دوسری وجہ ان کی محبوب بیوی رخشندہ کا بھی ریڈیو سے منسلک ہونا تھا، جس کی موجودگی کو وہ اپنی زندگی میں بہار کا باعث قرار دیتے تھے۔