سانحہ 9 مئی کا سبق: فوج کو لاڈلے پالنے سے گریز کرنا ہوگا

سانحہ 9 مئی 2023 سے تمام فریقین کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، پہلا اہم ترین سبق یہ ہے کہ فوج کو لاڈلے پالنے سے کنارہ کش ہونا ہو گا، اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی کو پُر تشدد سیاست سے تائب ہو کر ریاست اور سیاست کا فرق سمجھنا ہو گا۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی روزنامہ جنگ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’9 مئی‘ نے ہمیں ایک ہی سبق دیا ہے۔ پاکستان میں آئندہ کبھی ’9 مئی‘ نہیں آنا چاہئے۔ انکا کہنا ہے کہ 9 مئی ایک دن میں نہیں ہوا تھا، ایک سفر تھا جس کی منزل 9 مئی طے پائی تھی۔ انکے مطابق کبھی کبھی کوئی ایک جملہ، کوئی ایک نعرہ پورے عہد، پوری تحریک کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، اسی طرح 9 مئی کو جو ایک نعرہ پاکستان بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کا محرک بنا وہ تھا ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘۔
جب عمرانی حکومت جانے کے آثار پیدا ہوئے تو خان نے آئی ایم ایف اور ریاستِ پاکستان کے مابین ایک طے شدہ معاہدہ توڑ کر پٹرول کی قیمت کم کر دی، اس سے پاکستان کو آنے والے دنوں میں کتنا معاشی نقصان پہنچا یہ ایک طویل کہانی ہے، اس فیصلے کا معنیٰ تھا خان نہیں تو پاکستان نہیں، جب عمرانی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی گئی تو عمران نے ایک ہفتے کے دوران پانچ مرتبہ ریاستِ پاکستان کا آئین توڑا، بالاخر جب ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم ہوئی تو موصوف نے قومی اسمبلی سے باجماعت استعفیٰ دے دیا تھا، اس کا مطلب تھا خان نہیں تو آئین نہیں، خان نہیں تو نظام نہیں۔ اسی دماغی کیفیت میں پاکستان کے تین ٹکڑوں میں بٹنے کی ہرزہ سرائی کی گئی، اسی مائنڈ سیٹ نے پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی بات کی تھی۔ دنیا کے بڑے معاشی اداروں کو پاکستان کے ساتھ معاہدوں سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی؟
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ان عمرانی فیصلوں کا نقصان تو براہِ راست پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو ہونا تھا؟ لیکن عمران خان نے ان کروڑوں پاکستانیوں کو اپنی ریڈ لائن نہیں سمجھا۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ یوتھیوں نے ریاست کی رٹ کا کچرہ کر کے رکھ دیا تھا۔ ٹی وی پر بیٹھ کر اعلان کیے جاتے تھے کہ عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوں گے، اگر ہوں گے بھی تو ہزاروں جاں نثاروں کے ساتھ، یہ اعلان بھی کیے جاتے تھے کہ ریاست کے اہل کاروں کو زمان پارک میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کوئی آیا تو اس پر پٹرول بم گرائے جائیں گے، یہ سب کیا ہو رہا تھا؟ انقلابی ہر طرف دھاڑتے پھرتے تھے اگر خان کو پکڑا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔ فدائین صبح شام خانہ جنگی، خانہ جنگی کا یہ وظیفہ دہراتے ہی رہا کرتے تھے۔ یہ ہے وہ آنکھوں دیکھا احوالِ سفر جو 9 مئی کے سانحے پر منتج ہوا۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ہماری تاریخ میں 9 مئی جیسی کوئی مثال نہیں ملتی، سیاسی جماعتوں کو مقتدرہ سے شکایتیں بھی رہی ہیں، ان کے راہ نماؤں نے جیل اور جلاوطنی بھی بھگتی ہے، حتیٰ کہ بھٹو جیسوں نے پھانسی گھاٹ تک سجائے ہیں، مگر کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نے یہ فرمان جاری نہیں کیا کہ بھٹو نہیں تو پاکستان نہیں، نواز نہیں تو پاکستان نہیں۔ اب ذرا 9 مئی پر بھی نظر ڈال لیں کہ کیا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ 9 مئی ایک منظم کارروائی تھی، یلغار کا حکم ملتے ہی عمرانی جتھے ‘دشمن’ کی تنصیبات پر ٹوٹ پڑے، ایک ہی دن، ایک ہی وقت، پاکستان کے طول و عرض میں، دفاعی اداروں کی تنصیبات اور عمارتوں پر لشکر کشی کی گئی، آتش زنی کی گئی، توڑ پھوڑ کی گئی، حتیٰ کہ شہداء کی یادگاروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ہم نے یہ شرپسند جتھے اکٹھے ہوتے ہوئے دیکھے، ہم نے ان کے ’’انقلابی‘‘ عزائم سنے، اور پھر ہمیں 9 مئی کی رات پارٹی قیادت کے درمیان ٹیلیفونوں پر مسرور گفتگو سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہم نے یہ بھی سنا کہ جس ادارے کے دستے مجھے گرفتار کریں گے احتجاج بھی اسی ادارے کے خلاف ہو گا، ہم نے یہ بھی سنا کہ اگر مجھے پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ایک اور 9 مئی ہو گا۔
حماد غزنوی کے مطابق یہ وہ منظر ہے جو سب کو نظر آ رہا تھا، اب پسِ پردہ چلتے ہیں۔ فوج کے اندر نقب لگائی جا رہی تھی، چین آف کمانڈ توڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی، انقلاب کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اس انقلاب کا مطلب تو آپ لوگ سمجھتے ہی ہوں گے؟ خدا نہ خواستہ یہ انقلاب کام یاب ہو جاتا تو فوج کا نظم ٹوٹ جاتا، ملک میں خانہ جنگی کا خواب پورا ہو جاتا، ملک کی سالمیت داؤ پر لگ جاتی، یہ ہے اس نعرے کی تفسیر، خان نہیں تو پاکستان نہیں۔ دیوانگی کی یہ داستان یہاں تمام نہیں ہوتی۔ جب بغاوت ناکام ہو گئی تو معافی تلافی کے بجائے پارٹی نے یہ بیانیہ گھڑا کہ 9 مئی تو فوج نے خود کروایا ہے، اس نے خود اپنے طیارے جلائے ہیں، خود شہداء کی یادگاریں جلائی ہیں، خود فوج کے ادارے کی توہین کی ہے۔ اور اس بیانیے کے حق میں یہ دلیل تراشی کہ ادارے کے اہل کاروں نے 9 مئی کو عمارتوں کی حفاظت کیوں نہیں کی، یعنی انہوں نے عوام پر فائرنگ کیوں نہیں کی۔ یہ بیانیہ عقل کی توہین ہے۔
حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اب جب 9 مئی کے کیسز کے فیصلے آنا شروع ہو چکے ہیں دو تو سیاق و سباق کے یہ مناظر تازہ ہو گئے۔ ہمیں اپنی عدالتوں پر ناز نہیں ہے، مگر جو کچھ ہم نے دیکھا وہ رقم کر دیا۔ عدالتی فیصلوں میں قانونی سُقم ہیں تو اگلی عدالتوں میں دور ہو سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے جمہوری اور انصاف کے ادارے نقاہت کا شکار ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ 15 برس قبل عمران خان اس شکستگی کی بنیاد رکھنے والوں کے کاندھے پر سوار ہوئے تھے۔ بہرحال، سانحہ 9 مئی 2023 سے تمام فریقین کو سیکھنے کی ضرورت ہے، اداروں کو لاڈلے پالنے سے کنارہ کش ہونا پڑے گا، پی ٹی آئی کو پُر تشدد سیاست سے تائب ہو کر ریاست اور سیاست کا فرق سمجھنا ہو گا۔ زرداری صاحب نہیں ہوں گے، میاں صاحب نہیں ہوں گے، خان صاحب نہیں ہوں گے، لیکن جناح کا پاکستان قائم رہے گا۔ 9 مئی نے ہمیں ایک ہی سبق دیا ہے۔ پاکستان میں آئندہ کبھی ’’9 مئی‘‘ نہیں آنا چاہیے۔
