مودی کا پاگل پن

تحریر : حماد غزنوی

بشکریہ : روزنامہ جنگ

ایک شخص نے دو ارب افراد کی زندگی خطرے میں ڈال دی، نریندر مودی کے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا، انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایٹمی طاقت نے دوسری ایٹمی طاقت پر براہِ راست میزائل برسا دیے، پاکستان بھارت تنازعات کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہے جب ساری دنیا متفق ہے کہ ہندوستان نے لڑائی میں پہل کی ہے، بھارت جارح ملک ہے، بھارت نے پہلگام واقعہ کو بہانہ بنایا مگر دنیا کے سامنے اس واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ٹوٹا پھوٹا ثبوت بھی پیش نہ کر سکا۔ مودی کے پاگل پن کا جواب دینا ضروری تھا، بالکل ویسے ہی جیسے ہٹلر کے پاگل پن کا جواب دینا ضروری تھا۔ ہندوستان اس وقت ایک نفسیاتی طور پر بیمار ریاست کا روپ دھار چکا ہے۔ ایک ہزار سال کی غلامی کے بعد ہندوئوں نے پہلی بار 1947ءمیں اقتدار حاصل کیا ہے، حال ہی میں بھارت معاشی طور پر بھی کچھ مضبوط ہوا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ بھارت آپے سے باہر ہو چکا ہے، اپنی اقلیتوں کو کچلنے کی کوشش کر رہاہے، اپنے ہر ہمسائے سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور بنگلا دیش جیسے کم زور ملکوں کو بھی آنکھیں دکھاتا ہے، دنیا کے کئی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث ہے، امریکا اور کینیڈا میں تو رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا ہے۔ پاکستان پر میزائل حملہ بھی اسی چھچھور پن کا مظہر ہے۔پاکستان اور بھارت نے جنگیں لڑی تو ہیں، لیکن ’’جنگ کا المیہ‘‘ نہیں دیکھا۔ بھارتی اور پاکستانی شہروں نے نہ فضائی بم باری کی تباہ کاریاں بھگتیں نہ اپنے گلی کوچوں میں دشمن کے فوجی جتھوں کو غارت گری کرتے دیکھا، یعنی جنگ کا المیہ اپنی تمام تر وحشت کے ساتھ برصغیر کی اکثریت نے نہیں دیکھ رکھا۔ ہم نے جنگیں فلموں میں دیکھی اور ناولوں میں پڑھی ہیں، پینٹنگز میںدیکھی اور ترانوں میں سنی ہیں۔ شام اور یمن سے غزہ اور یوکرین تک، ڈھاکا سے کابل تک، ہم نے جنگیں دور سے دیکھی ہیں۔ جنگ کو دُور سے دیکھنے والے دشتِ حرب میں آگ برساتے آفتابِ وحشت کی جان لیوا حدت کو کبھی محسوس نہیں کر سکتے اور دوسری طرف جنگ کا عفریت جن انسانوں کے جسموں اور روحوں کو کچلتا ہوا گزرتا ہے اُس کا کرب نسلوں میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے، آج بھی مغرب میں عالمی جنگوں کی دہشت شہریوں کی نفسیات میں گُندھی ہوئی ہے، ’’ڈن کرک‘‘ سے ’’آل کوائٹ آن دی ویسٹرن فرنٹ‘‘ تک، آج بھی اُن جنگوں پر بہتیری فلمیں بنتی ہیں، آج بھی اُس اجتماعی دیوانگی سے عبرت حاصل کی جاتی ہے، آج بھی اُس پاگل پن کو یاد کیا جاتا ہے جو آٹھ دس کروڑ انسانوں کو نگل گیا تھا۔ ذرا غور کیجیے، یہ جنگ کا انسانیت پر پہلا وار ہوتا ہے کہ جیتے جاگتے انسانوں، نوجوانوں، معصوم بچوں، حاملہ عورتوں، ضعیفوں اور ماں، باپ، بھائیوں، بیٹوں، سب کو انسانیت کے منصب سے معزول کر کے ہندسوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، اور ہم سہولت سے لکھ دیتے ہیں ’’آٹھ دس کروڑ‘‘ لوگ مارے گئے۔ جنگ ایک ایسی دیوانگی کا نام ہے جس میں فریقین اخلاقیات، انسانیت اور انصاف کی ان تمام قدروں کو یک لخت معطل کر دیتے ہیں جنہیں وہ کل تک زندگی کی اساس تصور کرتے تھے۔ راتوں رات ’’قتل‘‘ اخلاق اور قانون کے دائرے سے آزاد ہو کر شجاعت کا استعارہ بن جاتا ہے، ایک جنگجو معصوم اجنبیوں پر بم گراتا ہے، اور اس عمل پر تمغوں سے سجایا جاتا ہے، فرانسیسی مفکر والٹیئر کا معروف فقرہ ہے کہ ’’سب قاتلوں کے لیے سزا ہے سوائے ان کے جو جتھوںکی صورت میں ٹرمپٹ کی دُھن پر قتلِ عام کرتے ہیں۔‘‘ جنگ ان پردھان منتریوں کا کچھ نہیں بگاڑتی جو اس کا اعلان کرتے ہیں، جنگ کی تباہ کاریوں کا نشانہ عوام ہوا کرتے ہیں، بے بس اور محکوم طبقات۔ عالمی جنگوں میں خندقیں کسانوں اور کارخانہ مزدوروں کی لاشوں سے اٹ جایا کرتی تھیں، وہ مزدور اور کسان جو اُس سامراجی جنگ کی غایت سے یک سر نابلد تھے، انہیں وطن سے محبت کے نام پر ہمسایوں سے نفرت کرنا سکھا دی گئی تھی۔ کیا اپنے وطن سے محبت کے لیے کسی دوسرے ملک سے نفرت ضروری ہوتی ہے؟

تمام جنگیں شروع کرنے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ جنگ امن قائم کرے گی، اگر آئندہ جنگوں سے بچنا ہے تو یہ جنگ لڑنا بہت ضروری ہے، پہلی جنگِ عظیم کا بھی یہ ہی نعرہ تھا، یہ الگ بات کہ پہلی جنگِ عظیم نے ہی دوسری جنگِ عظیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اپنے ہم وطنوں میں جنگی جنون بھڑکانے والے ہر حکم ران کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم جنگ نہیں کرنا چاہتے، ہم پر جنگ مسلط کی جا رہی ہے (حتیٰ کہ مودی صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں)۔ ویت نام سے عراق اور افغانستان تک جنگوں سے ایک ہی سبق ملتا ہے، جنگیں نہ صرف اپنا اعلان کردہ مقصد حاصل نہیں کر پاتیں بلکہ انہی مسائل کو گہرا کرتی ہیں جن کی بیخ کنی کے نام پر جنگ آغاز کی جاتی ہے، کروڑوں انسانوں کی جانیں جاتی ہیں، اور جو زندہ بچ جاتے ہیں زندگی ان کے لیے سزا بن جاتی ہے۔ جنگ کا سب سے لغو پہلو اس کی غارت گری نہیں ہے، بلکہ وہ منطق ہے جو انسانوں کو اس وحشت گری پر آمادہ کرتی ہے۔ انسانی تاریخ میں سب انسان دوست مفکرین اور بالخصوص فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت جنگ مخالف ہوا کرتی ہے کیوں کہ اس حسّاس گروہ کی پہلی وفاداری انسانوں سے اور ان کی فلاح سے ہوتی ہے، اور جنگ کا سب سے بڑا نقصان لاکھوں کروڑوں عام انسانوں کو پہنچتا ہے۔

مودی کو لینے کے دینے پڑ گئے

پاکستان نے اپنے عمل سے مسلسل یہ ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا، بھارت نے جارحیت کر کے پاکستان کو جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔ دو نیو کلیئر طاقتوں کی جنگ میں دونوں فریق ہار جائیں گے۔ بہتر ہے کہ اپنی داخلی سیاست میں کوئی چھوٹا موٹا فائدہ اٹھا کر مودی جی یہ پاگل پن یہیں روک دیں۔

Back to top button