کیا ماہرنگ اور بلوچ یکجہتی کونسل دہشتگردوں کا سیاسی چہرہ ہیں؟

عسکری و سول قیادت نے بلوچستان میں سیاسی و انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھ کر دہشتگردوں کیلئے گراؤنڈ بنانے والوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں بلوچستان میں تخریب کاری کرنے والوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والی تنظیموں کو وارننگ دی جائے گی اور اپنا طرز عمل ٹھیک کرنے کا پیغام دیا جائے گا تاہم باز نہ آنے والی تنظیموں اور شخصیات کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچ یکجہتی کونسل دہشت گرد علیحدگی پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کا سیاسی چہرہ بن چکی ہے۔ جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنا کر بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرنا ہو، یا بسوں سے غریب محنت کشوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات، صوبے میں سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے ہوں یا سوراب میں دہشت گردوں کا حالیہ حملہ۔ دہشت گردی کے کسی بھی گھناؤنے واقعے کی آج تک بلوچ یکجہتی کونسل نے مذمت تک نہیں کی بلکہ بلوچ یکجہتی کونسل مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ایسے واقعات کی تعریف و توصیف میں پوسٹیں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق قانون نافذ کرنے والوں کے پاس شواہد موجود ہیں کہ بی وائے سی نے بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کو سپورٹ کرنے کے لئے ایک منظم نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے، جس کی کرتا دھرتا ماہرنگ بلوچ ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر بی وائے سی کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ناروے کے ورلڈ ایکسپریشن فورم میں آزادی اظہار پر لیکچر دینے پہنچی تو بظاہر یہ ایک علمی دورہ تھا۔ لیکن پردے کے پیچھے کہانی کچھ اور تھی۔ اس دورے کے دوران اوسلو کے نواحی علاقے کے ایک گھر میں ماہرنگ بلوچ کی ملاقات بھارتی خفیہ ایجنسی را کے یورپی مشن چیف اجے چندر بیدی سے ہوئی تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پر امن احتجاج کے لبادے میں پاکستان مخالف مہم کا نیا خاکہ تیار ہوا۔ اجے چندر بیدی سے ملاقات کے موقع پر ہی یہ پلان ترتیب دیا گیا کہ انسانی حقوق کا بیانیہ اختیار کر کے بلوچ معاشرے کو بدگمان کیا جائے، اسی ملاقات میں خواتین اور کم عمر بچوں کو فرنٹ لائن بنا کر ہمدردی سمیٹنے کا منظم طریقہ کار طے کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح ناروے میں ہی پروجیکٹ لیلیٰ کے نام سے ایک ورکشاپ منعقد کی گئی ، جہاں پانچ روز کے دوران مختلف سیشنز میں بی وائے سی کے کمیونٹی آرگنائزرز کو سوشل میڈیا ہینڈلنگ اور اسکرپٹڈ سلوگنز سکھائے گئے۔ بھارت کا پلان تھا کہ ماہرنگ بلوچ چونکہ کراؤڈپلر ہیں اس لئے وہ اس کی پراکسیز کے لئے سافٹ چہرہ بن سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ورکشاپ کے دوران باقاعدہ زوم ورکشاپس بھی ہوئیں، جس میں شرکا کو سکھایا گیا کہ کس طرح کسی بھی سیکورٹی کارروائی کے بعد فوری طور پر لائیو اسٹریمز اور مخصوص ہیش ٹیگز سے سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بنانا ہے۔

ذرائع کے مطابق ماہرنگ بلوچ کی را چیف کے ساتھ ہونے والی مبینہ ملاقات میں یہ بھی طے پایاکہ بی ایل اے یا بی ایل ایف کے مارے گئے دہشت گردوں کی لاشیں حکومتی تحویل میں نہ رہنے دی جائیں، تاکہ ڈی این اے ٹیسٹ سے ان کی شناخت نہ ہو سکے۔ اگست دو ہزار چوبیس میں مکران پوسٹ میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے فوری بعد بی وائی سی نے بلوچ زندگیاں اہم ہیں” کے نام سے احتجاجی مہم چلائی اور اعداد وشمار بڑھا چڑھا کر پیش کئے۔ ستمبر دو ہزار چوبیس میں کوئٹہ پریس کلب کے باہر ایک سو سے زائد کمسن بچوں کو پلے کارڈز پکڑا کر میڈیا کے سامنے لایا گیا۔ فروری دو ہزار پچیس میں خضدار میں بھارتی پشت پناہی سے ہونے والے بم دھماکے کے بعد ماہرنگ بلوچ نے خواتین کو متحرک کیا اور عالمی میڈیا میں شہ سرخیاں بنوائیں۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ماہررن بلوچ کی ان تمام کارروائیوں کا مقصد یہ تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف کا رروائی کو ریاستی ظلم بنا کر پیش کیا جا سکے۔ تاہم اس کے برعکس رواں برس مارچ میں جعفر ایکسپریس ہائی جیک ہوئی ۔ درجنوں لوگ قتل کئے گئے۔ دہشتگردوں نے سکول بس کو نشانہ بنایا لیکن بلوچستان یکجہتی کونسل اور ماہر نگ بلوچ خاموش رہی۔ بلکہ الٹا دہشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائی پر احتجاجی دھرنا دے دیا۔ بعد ازاں ماہرنگ بلوچ کی قیادت میں دھرنے کے شرکا ہسپتال پر دھاوا بول کر لاشیں اٹھا کر لے گئے ۔ لاشیں لے جانے کا مقصد یہ تھا کہ پوسٹ مارٹم یا شناخت نہ کی جاسکے۔ کیونکہ ان میں "را” کے نیٹ ورک سے وابستہ دہشت گردوں کی لاشیں بھی شامل تھیں۔ یہ معاملہ محض یہاں پر ختم نہیں ہوا۔ بی ایل اے کے خلاف سیکیورٹی آپریشن کے بعد ماہرنگ بلوچ نے ایک بار پھر نام نہاد دھرناد یا جس میں ایک کمسن لڑکے کو خاص طور پر احتجاج کا چہرہ بنایا گیا۔ حالات اس وقت سنگین ہو گئے جب اسی دھرنے کے دوران اس لڑکے کو گولیاں ماردی گئیں ۔ اس کا الزام فوری طور پر بلوچ پولیس اہلکاروں پر لگادیا گیا۔ جبکہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق اس واقعہ میں ملوث دہشت گرد بھارتی سلیپر سیل کا تربیت یافتہ کارندہ تھا۔ جس نے منصوبہ بندی کے تحت یہ حملہ کیا تا کہ ریاستی اداروں کو بدنام کیا جاسکے اور عالمی میڈیا میں یہ تاثر پھیلائے کہ پاکستان انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

پاکستان سے جنگ کا پنگا لینے والے مودی نے شرمندگی کیسے سمیٹی

مبصرین کے مطابق یہ تمام واقعات اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ ماہر نگ بلوچ اور بی وائی سی کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی دہشت گرد تنظیموں کو کارروائیوں کے لئے گراؤنڈ فراہم کرنا ہے۔ تاہم اب بلوچ دہشتگردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والی بلوچ یکجہتی کونسل سمیت دیگر تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ گیا ہے اور حکومت نے انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھ کر ان دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کرنے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصؒہ کر لیا ہے اور بڑی عید کے بعد بڑی کارروائی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

Back to top button