ایران کو اپنی فوجی قیادت کی شہادت سے فرق کیوں نہیں پڑا ؟

اسرائیلی حملوں میں ایران کی ٹاپ فوجی لیڈرشپ کو شہید کرنے کے باوجود تہران نے تل ابیب پر بیلسٹک میزائلوں سے بڑے حملہ کرتے ہوئے مؤثر جواب دیا ہے، چنانچہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اپنی فوجی قیادت کے خاتمے کے باوجود ایران کی فوجی صلاحیت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کا مقصد ایران کو نیوکلیئر طاقت بننے سے روکنے کے علاوہ رجیم regime کی تبدیلی بھی ہے، اسی لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایرانی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں چونکہ انہیں حکومت کی تبدیلی کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ تاہم اسرائیلی حملوں کا ایرانی عوام پر الٹا اثر ہوا ہے اور لوگ اپنی حکومت کے حق میں سڑکوں پر مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے جمعے کو ایران کے خلاف آپریشن ’رائزنگ لائن‘ کے تحت حملے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس میں اس کے مطابق ایران کے فوجی اور جوہری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حملوں کا ایک بڑا ہدف ایرانی فوجی جرنیل تھے۔ اسرائیلی آپریشن کی وسعت بارے اندازہ تب ہونا شروع ہوا جب شہید ہونے والے ایرانی فوجی کمانڈرز کے نام سامنے آنا شروع ہوئے۔ اسرائیلی حملوں میں ایرانی فوج کے سربراہ یعنی چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری کے علاوہ پاسداران انقلاب کے با اثر اور متحرک ترین کمانڈر ان چیف حسین سلامی بھی مارے گئے۔

اگرچہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’باقری اور سلامی کے جانشین اور ساتھی فوری طور پر ان کی جگہ ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں لیکن ان کی اچانک شہادتوں سے بلاشبہ ایران کو دھچکا پہنچے گا۔

یاد رہے کہ جنرل محمد باقری ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف تھے، یعنی وہ ملک بھر میں سب سے اعلیٰ فوجی افسر تھے۔ ایران کی مسلح فوج جسے ارتش کہا جاتا ہے، ان کے ماتحت تھیں اور وہ ملک کے پورے سکیورٹی نظام کے ذمہ دار تھے۔ محمد باقری نے پاسدارانِ انقلاب میں 1980 میں شمولیت اختیار کی، یعنی انقلابِ ایران کے ایک سال بعد اور اسی سال ایران اور عراق کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ یہ کشیدہ تنازع آٹھ برس چلا اور دونوں اطراف ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور ایران کو بھاری نقصان ہوا۔’

جنرل باقری نے ایران عراق جنگ میں بھی حصہ لیا اور وہ ایرانی انٹیلی جنس آپریشنز کے پہلے کمانڈر بھی تھے، ایران عراق جنگ کے دوران محمد باقری نے ابتدائی طور پر آپریشنل فیلڈ میں اپنا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ انٹیلی جنس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

جنرل باقری 1983 میں پاسدارانِ انقلاب کے خفیہ آپریشنز کے سربراہ تھے۔ جنگ کے بعد انھیں اٹیلیجنس اور آپریشنز کا نائب سربراہ بھی بنایا گیا تھا۔’ انھوں نے 1997 کے آپریشن میں عراق میں ‘خصوصی کردار’ ادا کیا۔ 2016 میں وہ پاسدارانِ انقلاب کے چیف سٹاف بنے۔ ان پر گذشتہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ یہ پابندیاں ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای کے ‘قریبی حلقے’ پر لگائی گئی تھیں۔

خیال رہے کہ ان پر یورپی یونین پر روس کو ڈرونز سپلائی کرنے پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور ان پر کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے سنہ 2022 میں مہسا امینی کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کرنے پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان کی موت کے بعد ایران نے سابق وزیرِ دفاع اور داخلہ احمد واحدی کو ان کا عبوری متبادل لگایا ہے۔

اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے سب سے سینیئر ایرانی رہنما جنرل حسین سلامی تھے جو کہ پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر ان چیف حسین تھے۔  سلامی نے 1980 میں ایران عراق جنگ کے آغاز پر پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جیسے جیسے انھیں فوج میں ترقی ملی ان کے بارے میں یہ مشہور ہونے لگا کہ وہ ایران کے مخالفین خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ 65 سالہ سلامی نے اسرائیل کو گذشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ یا اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو تہران ان پر ‘جہنم کے دروازے’ کھول دے گا۔ 21ویں صدی کے آغاز کے بعد سے انھیں ایران کے جوہری اور عسکری پروگرامز سے منسلک ہونے کے باعث اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

سال 2024 سلامی کی قیادت میں ہی ایران نے اسرائیل پر پہلا فوجی حملہ کیا تھا جس میں 300 ڈرونز اور میزائل داغے گئے تھے۔ جب حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ حالیہ دنوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا تو سلامی نے کہا تھا کہ ایران ‘کسی بھی قسم کی صورتحال، واقعات اور حالات کے لیے پوری طرح تیار ہے۔’ انھوں نے کہا تھا کہ ‘دشمن سمجھتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اسی طرح لڑ سکتا ہے جس طرح وہ کسی دفاعی صلاحیت سے محروم فلسطینیوں سے لڑ رہا ہے جو اسرائیلی محاصرے میں ہیں۔ لیکن ہم نے جنگیں لڑی ہیں اور ہم تجربہ کار ہیں اور ہم اسرائیل کو بھرپور جواب دیں گے۔’

سلامی نے ایرانی فوجی صلاحیت بارے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا ملک ‘عالمی طاقت بننے کے دہانے پر ہے۔’ جب اسرائیل نے سنہ 2019 میں شام میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا تھا تو سلامی نے ‘صیہونی رجیم کا خاتمہ’ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ جب گذشتہ برس اپریل میں شام میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے سات اہلکار ہلاک ہوئے تو جنرل سلامی نے خبردار کیا تھا کہ ‘ہمارے بہادر جوان صیہونی ریجیم کو سزا دیں گے۔’

فوجی طاقت کے اعتبار سے اسرائیل زیادہ طاقتور ہے یا ایران ؟

اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں ایک اور اہم ترین کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد نے 17 سال تک مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ 2016 میں، آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے، وہ خاتم الانبیا بیس کے کمانڈر بنے، جسے ایران کا جنگی اڈہ بھی کہا جاتا ہے۔ خاتم الانبیا مرکزی ہیڈ کوارٹر دراصل مسلح افواج کی آپریشنل کوآرڈینیشن کا ذمہ دار ہے۔

راشد نے ایران کا دفاعی فلسفہ تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شہرت پاسداران انقلاب کے سینیئر کمانڈر اور فوجی حکمت عملی کے ماہر افسر کے طور پر تھی۔ وہ 1953 میں پیدا ہوئے اور 1979 میں پاسداران انقلاب کا حصہ بنے۔ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے دوران، غلام علی راشد نے بڑی فوجی کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں پاسداران انقلاب کے ممتاز کمانڈروں کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ مختلف محاذوں پر فوجی فیصلہ سازی کے چیمبرز کا ایک اہم رکن تھا اور آپریشن فتح المبین، بیت المقدس اور والفجر 8 کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ راشد میڈیا میں کم ہی دکھائی دیتے تھے لیکن فیصلہ سازی اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایران کے دفاعی ڈھانچے کو ڈیزائن کرنے میں انھیں ہمیشہ سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

پاسدران انقلاب کی ایرو سپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ بھی اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے ہیں۔  امیر علی حاجی زادہ 1962 میں تہران میں پیدا ہوئے اور 1980 میں پاسدران انقلاب میں شامل ہوئے۔ انھیں 2006 میں ایرو سپیس فورس کا کمانڈر تعینات کیا گیا تھا۔

Back to top button