دہشت گردی کا جن پاکستان کو نگلنے لگا : فوجی قیادت کب جاگے گی ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس کے ہولناک حملے اور مسافروں کے قتل عام کے بعد سے ریاست پاکستان کی خاموشی نہ صرف مجرمانہ ہے بلکہ افسوسناک بھی ہے، اب ریاست کی جانب سے دہشت گردوں کو زبانی دھمکاتے رہنے سے بات نہیں بنے گی کیونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، اگر اب بھی ریاست کے طاقتور اور با اختیار ترین ادارے نے ملک دشمن دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کوئی نیشنل ایکشن پلان ترتیب نہ دیا تو دہشت گردی کا جن پاکستان کو نگل جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
بی بی سی اردو کے لیے اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ہماری ریاست اُن شر پسندوں سے مسلسل لا علم ہے جو کسی کو کہیں بھی مرتد، کافر کہہ کر نذر آتش کر دیتے ہیں اور چند دن تاسف کے بعد معاملہ منوں مٹی تلے دب جاتا ہے۔ انکے مطابق ہماری ریاست کے ہاتھ میں جتنی اُنگلیاں ہیں سب اس وقت شَکر سے بھری ہوئی ہیں۔ ہمارے ریاستی اداروں کو ٹیڑھی اور سیدھی دونوں انگلیوں سے گھی نکالنے کا ہُنر گزشتہ 75 برسوں سے آتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ لاٹھی کس بھینس پر کب اور کیسے چلانی ہے؟ ہماری ریاست 15 ہزار جدید اسلحے سے لیس طالبان دہشت گردوں سے بھی لڑ رہی ہے اور اسے 1500 بلوچ باغیوں کو گھیرنا بھی آتا ہے۔ یقیناً چھ لاکھ جوانوں پر مشتمل فوج انڈین آرمی سے بھی نمٹنا جانتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ہم اپنے اہداف سے بھی آگاہ ہیں اور رفتار سے بھی مگر ریاست نہیں جانتی تو اُن مُٹھی بھر انتہاپسندوں کو جو کراچی کی عبادت گاہ میں آنے والے احمدیوں کی شناخت کرتے ہیں، پھر اُن کا پیچھا کرتے ہیں اور اسکے بعد انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔ ریاست اُن شر پسندوں سے مسلسل نظریں چرا رہی ہے جو کسی کو کہیں بھی مرتد، کافر کہہ کر نذر آتش کر دیتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ہر کچھ عرصے بعد رونما ہونے والے ایسے قتل کے واقعات چند لمحے کے لیے ہمارے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ضرور ہیں، مگر پھر ہم کسی دوسرے سانحے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے میں خطرہ ہماری دو قومی نظریے کو نہیں بلکہ نظریوں میں بٹی پاکستانی قوم کو ہے۔سوات میں بیچ چوراہے جلائے جانے والے مسافر، مردان یونیورسٹی میں ذاتی دشمنی کو توہین رسالت کی شکل دے کر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم مشال خان، بغیر کتبوں کے قبروں میں غیر محفوظ احمدی، اور مسمار شُدہ قبروں میں دفن بے نشان ہڈیاں دراصل ہمارے مردہ معاشرے کی بے ضمیری کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔ دوسری جانب ارباب اختیار یا تو خاموش ہیں یا مفاد کی فیکٹری کے اِن اوزاروں سے بے پروا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ریاست پاکستان اس وقت ایک مستقل تجربہ گاہ بن چکی ہے، ہماری ریاست پہلے ایک پراجیکٹ بناتی ہے، پھر اسے استعمال کرتی ہے، پھر اپنی تخلیق کے عتاب کا شکار ہوتی ہے اور پھر اپنے ہی پروجیکٹ کو لپیٹنے میں لگ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان میں دہائیوں سے چل رہا ہے۔ ہمارے ادارے ایک پراجیکٹ کے آغاز کے لیے ایک گروہ اور پھر اُس کے خاتمے کے دوسرا گروہ تشکیل دیتے ہیں۔ انکی جانب سے ایک سیاسی جماعت بنائی جاتی یے تو دوسری گرائی جاتی یے، کبھی ایک دس سالہ منصوبہ تو کبھی دوسرا دس سالہ پروگرام بنایا جاتا ہے جبکہ عوام کبھی زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں تو کبھی مُردہ باد کی صدا بُلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آمریت سے فسطائیت اور ہائبرڈ سے ہائبرڈ پلس کی جانب جاری اس سفر میں بس چہرے بدلتے ہیں، کردار اور عوامل ایک سے رہتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق اس وقت پاکستان میں انتہا پسندی کا عفریت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جس کے ہاتھ میں آگ ہو وہ پانی کا کیوں سوچے گا۔ اُس کا مصرف صرف آگ لگانا ہی ہو گا لیکن شاید ایسے سانپ ریاستی آستینوں میں اس لیے پالے جاتے ہیں کہ وہ اپنے مخالف کے گریبانوں میں گھسائے جا سکیں۔ نفرت کے اس کاروبار میں محبت کے گھاٹے کا سودا کوئی کیوں کرے گا؟ سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی تمام جماعتوں اور فوجی اسٹیبلمشنٹ کا متفقہ نیشنل ایکشن پلان موجود ہے جس پر 2014 کے سانحہ پشاور سکول کے بعد عمل درآمد کیا گیا تو اُس کے مثبت اثرات بلاشُبہ دیکھنے کو ملے۔ اسکے نتیجے میں کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پایا گیا البتہ ریاست کی ’سیاسی ضروریات‘ کے پیش نظر جمہوری قوتوں کو دباؤ میں لانے کے لیے وسطی پنجاب کی مذہبی جماعت تحریک لبیک کی اچانک ترویج سامنے آئی جو بعد ازاں ریاست پاکستان کی جانب سے حسب منشا استعمال کی جانے لگی۔
نواز شریف کی ہدایت پر اندرون لاہور کی 2500 عمارتیں گرانے کا فیصلہ
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ حیرت انگیز طور پر تحریک لبیک جیسی انتہا پسند تنظیم کی ریاست کے ہاتھوں کھلم کھلا نشوونما نے کئی خاموش سوالوں کو جنم دیا ہے لیکن چونکہ خاموشی کی اپنی زبان تھی لہازا اس زُبان کے سامنے سب بے زُبان رہے۔ مسلم لیگ کے پچھلے دور حکومت میں تحریک لبیک کی جانب سے دیے گئے فیض آباد دھرنے اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ فیض ہو یا فیض آباد پسند اپنی اپنی اور نصیب اپنا اپنا۔پاکستان اس وقت جن چیلنجز سے گُزر رہا ہے بلاشُبہ یہ موڑ نازک سے خطرناک ہو چکا ہے۔ ہم ایک بم پر کھڑے ہیں۔ ہمارے پیروں کے نیچے زلزلوں کی گُزرگاہیں ہیں۔ مانا کہ معیشت سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن انتہا پسندی کا جن دھیرے دھیرے پاکستان کو نگل رہا ہے۔ لہٰذا انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ریاست کے پاس جو بھی ایکشن پلان ہے اُس پر فوری عمل کرنا ہو گا، ریاست کی چھتری تلے چھپے گروہوں اور پریشر گروپس کے خاتمے کے بغیر پاکستانی معاشرہ تندرست نہیں ہو پائے گا، ویسے بھی بیمار معاشرے کب تک زندہ رہتے ہیں؟