انڈین وزیراعظم مودی کو ہندوئوں کا اسامہ بن لادن  کس نے قرار دے دیا؟

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ 2025 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کا نمبر 151 اور پاکستان کا نمبر 158 ہے۔ یعنی پاکستان سات درجے نیچے ہے۔ لیکن حالیہ چار روزہ جنگ میں بھارت کو شکست دینے کے بعد ہم سب امید سے ہیں کہ اگلے سال ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھی پاکستان کی جانب سے بھارت کو شکست دی جائے گی۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر بتاتے ہیں کہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی پولیس نے ایک کارٹونسٹ ہیمنت مالویہ کیخلاف وزیراعظم نریندر مودی کی شان میں گستاخی کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کارٹونسٹ کیخلاف مقدمے کا مدعی آر ایس ایس کا ایک کارکن ونے جوشی ہے جس نے الزام لگایا ہے کہ ہیمنت مالویہ نے وزیراعظم مودی کے علاوہ ہندوئوں کے دیوتا شیوا کی بھی توہین کی ہے۔ مالویہ کیخلاف مقدمے کی خبر پڑھ کر مجھے ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی نئی کتاب ’’شناخت پریڈ 2‘‘ یاد آ گئی جو کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی سے پہلے شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب مختلف شخصیات کے بارے میں چھوٹے چھوٹے خاکوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں کہیں بھی پھکڑ پن اور تمسخر نظر نہیں آتا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر یونس بٹ نے اپنی کتاب میں مودی کو ہندوئوں کا اسامہ بن لادن قرار دیا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسامہ امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد سے سمندر میں غرق ہے جبکہ مودی خشکی پر موجود ہے۔ اسامہ دوسرے ملکوں پر حملے کروانے کے بعد ان کی ذمہ داری بھی لیتا تھا جبکہ مودی اپنے ہی ملک پر حملے کرواتا ہے اور پھر ان کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔ سینئر صحافی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر یونس بٹ نے یہ کتاب مجھے 14اپریل 2025ء کو دی تھی جبکہ اس کے ایک ہفتے بعد ہی 22 اپریل کو پہل گام میں نہتے سیاحوں پر حملہ ہو گیا۔ وزیراعظم مودی کی حکومت نے حملے کا الزام پاکستان پر پہلے لگایا اور تحقیقات بعد میں شروع کیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ایسی باتیں بھارت میں لکھتے تو ان کے ساتھ کیا ہوتا؟ یقینا وہی ہوتا جو ہیمنت مالویہ کے ساتھ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کا وکیل عدالت کو بتاتا کہ جناب میرے موکل نے صرف نریندر مودی پر نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت طنز کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’مانا پیسے سے محبت نہیں ملتی لیکن محبوبہ تو ملتی ہے ناں‘‘۔ٹرمپ ایک مکمل بزنس مین ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کے صدر بننے سے امریکا کو کیا فائدہ ہوگا۔ وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ امریکا کا صدر بننےسے اسے کیا فائدہ ہوگا۔ عدالت میں ڈاکٹر صاحب کے وکیل کی کوئی دلیل نہ سنی جاتی اور مختصر سماعت کے بعد ڈاکٹر صاحب کو فیک نیوز پھیلانے اور دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں چودہ سال قید بامشقت سنا دی جاتی۔

حامد میر کہتے ہیں اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ڈاکٹر یونس بٹ کی یہ نئی کتاب صرف غیر ملکی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے؟ جی نہیں! اس کتاب میں زیادہ تر خاکے پاکستانی شخصیات کے بارے میں ہیں۔ سب سے لمبا خاکہ اداکارہ میرا کا ہے جسکی وجہ صرف ڈاکٹر صاحب ہی بتا سکتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ مریم نواز کا خاکہ پڑھ کر میں بہت زیادہ تشویش کا شکار ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق تو گوجرانوالہ سے ہے لیکن آج کل وہ لاہور میں مقیم ہیں اور کچھ عرصہ قبل لاہور پولیس نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کا تمسخر اڑانے کے الزام میں پیکا قانون کےتحت مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو پھیلتا ہوا خیبر پختونخوا اور سندھ سے بلوچستان تک پہنچ گیا۔ یقیناً سوشل میڈیا پر لاف زنی، ہرزہ سرائی اور گالی گلوچ کو آزادی اظہار کے نام پرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن بھارت کی طرح پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں تعمیری تنقید اور بذلہ سنجی کو ملک دشمنی قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ آج کل پاکستان کی حکمران اشرافیہ اپنے میڈیا کی بڑی تعریفیں کر رہی ہے اور اسے بھارتی میڈیا کا مقابلہ کرنے والی آہنی دیوار قرار دے رہی ہے۔ لیکن میں ڈاکٹر یونس بٹ کے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہوں۔ انہوں نے اپنی خاکوں پر مبنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’مریم نواز میں دو بڑی خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ بڑی لیڈر ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور دوسری یہ کہ نواز شریف ان کے والد ہیں‘‘۔ یہاں تک تو قابل برداشت ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی لکھ دیا کہ مریم نواز کو جو بات اچھی نہ لگے اس کے لئے اپنا کان بند نہیں کرتیں بلکہ دوسروں کی زبان بند کردیتی ہیں۔ مخالفین مریم کو آئرن لیڈی بھی کہتے ہیں کیونکہ جیل میں وہ فرائنگ پین سے کپڑے آئرن کیا کرتی تھیں۔ مریم کی سیاسی ٹریننگ میاں نواز شریف نے خود کی ہے اسی لئے مریم نواز کی سیاست میں عوام کو نوے کی دہائی کے نواز شریف نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر یونس بٹ نے لکھا ہے کہ بلاول مردوں کا بے نظیر بھٹو اور مریم نواز عورتوں کی نوازشریف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاول کے متعلق لکھا ہے کہ موصوف کی اردو اور پاکستان کی اکانومی میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے بہتر ہو جائے پر ہوتی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شہباز شریف کو وہ پنکھا قرار دیا ہے جو چلتا زیادہ ہے پر ہوا کم دیتا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان وہ پنکھا ہے جو چلتا نہیں لیکن ہوا بہت ذیادہ دیتا ہے۔ جیسے شہباز شریف سمجھتا ہے کہ وہ واقعی وزیراعظم ہے ایسے ہی چاہت علی خان سمجھتا ہے کہ وہ سنگر ہے۔ عمران خان کے متعلق فرمایا کہ وہ سیاست میں نفرت کے قائل نہیں شدید نفرت کے قائل ہیں۔

ڈاکٹر یونس بٹ مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر کامیاب سیاست دان کے پیچھے عدلیہ اور محکمہ زراعت ہوتا ہے۔ عمران خان وہ سیاستدان ہے جسکے پیچھے یہ دونوں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے وہ خان کے پیچھے تھے اب خان ان کے پیچھے ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ نے فیصل واوڈا کے متعلق لکھا ہے کہ یہ وہ مبینہ سیاستدان ہے جسکی سیاست جوس کے اس خالی ڈبے جیسی ہے جس پر پائوں مارنے سے کوئی زخمی نہیں ہوتا لیکن پٹاخہ دور تک سنائی دیتا ہے۔ وہ مذید لکھتے ہیں کہ فیصل واوڈا وہ فلمی ہیرو ہے جو خود ہی محبوبہ کو اغوا کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے چھڑانے پہنچ جاتا ہے اور پھر یہ گانا گاتا ہے میں زبان ہوں کسی اور کی مجھے بولتا کوئی اور ہے۔

حمزہ شہباز سیاسی منظر نامے سے خود غائب ہیں یا غائب کر دیے گے؟

حامد میر کے بقول ہم سب امید سے ہیں کہ ڈاکٹر یونس بٹ کی بٹ تمیزیاں نظر انداز کردی جائیں گی اور ہیمنت مالویہ کی طرح ان کے خلاف کوئی کریمینل کیس نہیں بنے گا۔ چلتے چلتے حکومت کو صرف یاد دلانا تھا کہ 2025 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کا نمبر 151 اور پاکستان کا نمبر 158 ہے۔ پاکستان سات درجے نیچے ہے ۔ ہم سب امید سے ہیں کہ اگلے سال ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھی پاکستان کی جانب سے بھارت کو شکست دی جائے گی۔

Back to top button