پاکستان کے خلاف ایک اور جنگ سے ہٹتی مودی کی نئی حکمتِ عملی

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت

عقلِ کل ہونے کا میں دعوے دار کبھی نہیں رہا۔ غلطی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ یہ اعتراف کرنے کو لہٰذا مجبور ہوں کہ میری سوچ کے برعکس بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کے پہل گام میں ہوئے دہشت گردی کے واقعے کا سارا الزام پاکستان پر دھرنے کے بعد اب ہمیں فوری طورپر ’’سبق‘‘ سکھانے کے اقدامات لینے سے کترارہا ہے۔موصوف کااس ضمن میں اپنایا انداز اگرچہ نہایت مکارانہ ہے۔
بھارت میں کسی بھی ملک کے خلاف قومی سلامتی کے نام پر جارحانہ اقدامات لینے کا فیصلہ وہاں کی کابینہ کی ایک خصوصی کمیٹی کرتی ہے۔ وزیر اعظم کی صدارت میں قائم اس کمیٹی کے اراکین میں فقط وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ شامل ہوتے ہیں۔ مسلح افواج کے سربراہان مذکورہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوتے۔ قومی سلامتی کا مشیر بھی فقط ’’خصوصی دعوت‘‘ پر بلایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ 2019ء میں پلوامہ پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد سے اس کمیٹی کے اجلاس میں نریندر مودی کا چہیتا مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول مستقل رکن کی طرح شریک ہوا نظر آتا ہے۔
پہل گام واقعہ کے بعد بھارتی کابینہ کی اس کمیٹی جسے کیبنٹ کمیٹی برائے سلامتی (CCS)کہا جاتا ہے کا اجلاس ہوا۔ اس کے دوران یہ طے ہوا کہ ورلڈ بینک کی رہ نمائی اور معاونت سے طے ہوئے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ اس کے علاوہ بھارت نے اپنے ہاں مقیم پاکستانی سفارت کاروں کی تعداد 30تک محدود کرنے کا تقاضہ کیا۔ پاکستانیوں کے لئے ہر نوعیت کے ویزے بھی فی الفور منسوخ کردئے گئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم میری دانست میں وہ ویزے تھے جو متوسط طبقے کے پاکستانیوں کو جگر اور معدے میں پیوندکاری کے لئے جاری کئے گئے تھے۔ انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو بھلاکر میڈیکل ویزہ پر آئے تمام پاکستانیوں کو 29اپریل تک بھارت چھوڑنے کا حکم ملا۔
موذی امراض کے علاج کے لئے بھارت گئے پاکستانیوں کو سفاکانہ انداز میں وطن لوٹنے کی حتمی تاریخ دیتے ہوئے مودی سرکار نے یہ پیغام دیا کہ وہ 29اپریل کے بعد پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدامات لینا چاہ رہی ہے۔ غالباََ اسی باعث پاکستان کے وزیر اطلاعات نے منگل اور بدھ کی درمیانی رات دوبجے کے قریب پاکستانیوں کو خبردار کیا کہ آئندہ 24سے 36گھنٹوں میں بھارت کوئی جارحانہ قدم اٹھاسکتا ہے۔ 29اپریل کو مگر عمومی روایات سے ہٹ کر بھارتی وزیر اعظم نے براہ راست اپنے وزیر دفاع اور مشیر برائے قومی سلامتی کی موجودگی میں مسلح افواج کے سربراہان پر مشتمل ایک اجلاس کی صدارت کی۔ اس کے اختتام پر ایک غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے ذریعے دنیا کو یہ ’’خبر‘‘ دی گئی کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنی افواج کے سربراہان کو ’’کھلا ہاتھ(Free Hand)‘‘دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں یہ اختیار فراہم کردیا گیا ہے کہ وہ ازخود پاکستان کے خلاف پہل گام میں ہوئی دہشت گردی کے واقعات کا بدلہ لینے کے ’’انداز،اہداف اور وقت‘‘ کا تعین کریں۔
جس انداز میں یہ خبر چھپوائی گئی اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ شاید 29اپریل گزرجانے کے بعد بھارتی افواج کو پاکستان پر چڑھ دوڑنے کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔ ذاتی طورپر میں نریندر مودی کے انتہا پسندانہ نظریات سے آگاہ ہوتے ہوئے اس ’’خبر‘‘ کے لئے تیار تھا۔ بھارت کے سیاسی نظام پر دو سے زیادہ دہائیوں تک توجہ مبذول رکھتے ہوئے بھی مگر یہ سوچ ہی نہ پایا کہ بھارتی وزیراعظم نے کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی افواج کے سربراہان سے براہ راست ملاقات کیوں کی ہے۔ ان سے ملاقات کے بعد پاکستان کے خلاف حتمی فیصلہ سازی کا اختیار ان کے سپرد کردینا بھی حیران کن تھا۔ بھارت اپنے ہاں فیصلہ سازی پر ’’سول سپرمیسی‘‘ یا منتخب حکومت اور دیگر سویلین اداروں کی بالادستی پر بہت نازاں محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نریندر مودی بھی بطور وزیراعظم ہر معاملے پر ذاتی نگاہ رکھنے کا عادی ہے۔اس تناظر کوذہن میں رکھتے ہوئے میرے ذہن میں سوال یہ اٹھنا چاہیے تھا کہ پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام اٹھانے کے لئے ’’وقت اور طریقہ کار‘‘ کا اختیار بھارتی فوج کے حوالے کیوں کردیا گیا ہے۔ ذہن میں یہ سوال اٹھتا تو شاید میں یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ نریندر مودی ’’پاکستان کوسبق سکھانے‘‘ کی ذمہ داری اپنے کاندھوں سے ہٹاکر اپنی افواج کے سرمنتقل کررہا ہے۔ ’’عقل کل‘‘ کی طرح سوچتے ہوئے اس رائے پر قائم رہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کی جلدی میں ہے۔

باقاعدہ جنگ کی طرف دھکیلتے مودی کے اقدامات

بدھ 30 اپریل کو مگر بھارتی کابینہ کی ایک اور خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس کمیٹی کو ’’کیبنٹ کمیٹی برائے سیاسی امور‘‘کہا جاتا ہے۔ اس کے اجلاس کے اختتام پر ایک حیران کن فیصلے کا اعلان ہوا۔ حیران کن فیصلہ یہ ہے کہ بھارت میں آئندہ مردم شماری کرواتے ہوئے یہ جاننے کی بھی کوشش کی جائے گی کہ آبادی میں اونچی اور نچلی ذاتوں کا تناسب کیاہے۔ اس کے علاوہ گھرانوں کی آمدنی کے حوالے سے ’’شناخت‘‘ بھی طے کرنے کی کوشش ہوئی۔ پاک-بھارت کشیدگی کی انتہا کے دنوں میں بھارتی کابینہ کی جانب سے آیا یہ فیصلہ حیران کن اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی عروج کی اصل وجہ 1980ء کی دہائی میں ہوا یہ فیصلہ تھا کہ سرکاری ملازمتوں کا 27فی صد حصہ ہر صورت نچلی اور پسماندہ تصور ہوتی ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کیلئے مختص کیا جائے۔اونچی ذات کے نمائندوں پر مشتمل حکومتیں اس فیصلے کے اطلاق میں لیت ولعل سے کام لیتی رہیں۔ 1990ء کی دہائی میں لیکن ایک وزیر اعظم تھے۔ نام تھا ان کا وی پی سنگھ۔ جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے وہ ٹھاکرتھے جواونچی جات کہلاتی ہے۔ موصوف نے مگر منڈل کمیشن کہلاتے ایک ادارے کی جانب سے 27فی صد والے فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کروانا شروع کردیا۔ اونچی جات کے برہمنوں نے اس وزیر اعظم کے خلاف خودکشیوں سے احتجاج کیا۔ وی پی سنگھ کے خلاف جو احتجاج ہورہا تھا بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اونچی جات کی ترجمان نظرآنے کے بجائے بی جے پی یہ دعویٰ کرتی رہی کہ 27فی صد والا فیصلہ درحقیقت ہندو اکثریت میں ذات کی بنیاد پر تقسیم پیدا کرتا ہے۔ اس تقسیم سے فائدہ اٹھاکر نچلی ذات کی نمائندگی کی دعوے دار جماعتیں مسلمانوں کے ’’نخرے‘‘ اٹھاتے ہوئے ’’سیکولر ازم‘‘ کے نام پر ایسی حکومتیں قائم کرتی ہیں جو ’’میرٹ‘‘ کو کچلتے ہوئے ’’بری حکومت‘‘ کے نظام کو مضبوط تر بناتی ہیں۔ اس کہانی کی بنیاد پر بی جے پی ’’ہندو یکجہتی‘‘ کی ترجمان جماعت تصور ہوئی اور ’’سیکولرازم‘‘ کے خلاف کامیابی سے لڑتی رہی۔ اب اسے پاکستان کیخلاف ’’جنگ‘‘لڑنا تھی مگر مودی نے آئندہ اکتوبر-نومبر کے دوران بہار کے صوبائی انتخابات جیتنے کے لئے اپنے اتحادی نتیش کمار کے مطالبے پر نئی مردم شماری کروانے کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستان کیخلاف ایک اور جنگ چھیڑنے کی ذمہ داری سے یوں جند چھڑالی ہے۔

Check Also
Close
Back to top button