مودی کا یاسین ملک کی عمر قید کو پھانسی میں بدلنے کا منصوبہ

بھارت اور کشمیر کی سیاست ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں تاریخ خود کو دہراتی محسوس ہوتی ہے۔مقبول بٹ اور افضل گورو کے بعد اب بھارتی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کی عمر قید کی سزا کو پھانسی میں تبدیل کرنے کی اپیل کر کے کشمیر کی آزادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے مطالبے نے کشمیر کے دیرینہ تنازع، سیاسی ماحول اور انسانی حقوق بارے سوالات کو ایک بار پھر عالمی بحث کا مرکز بنا دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یاسین ملک کا معاملہ محض ایک عدالتی کارروائی نہیں بلکہ کشمیری تنازعے کے سیاسی اور جذباتی پہلوؤں کا عکاس ہے۔ ایک طرف بھارت اسے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن قدم قرار دے رہا ہے، تو دوسری طرف کشمیر اور پاکستان میں اسے کشمیری قیادت کو خاموش کرنے کی مہم سمجھا جا رہا ہے۔ اگلے چند ماہ یہ طے کریں گے کہ یہ مقدمہ انصاف کی تاریخ میں درج ہوگا یا سیاسی انتقام کی داستان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

یاد رہے کہ بھارت میں اس سے قبل 1984 میں لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ اور 2009 میں افضل گورو کو تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ دونوں کو وہیں دفنایا گیا۔ اب خدشہ یہی ہے کہ اگر عدالت نے این آئی اے کی اپیل منظور کر لی تو یاسین ملک اس فہرست میں شامل ہونے والے تیسرے کشمیری رہنما بن جائیں گے۔

مبصرین کے مطابق مسلح جدوجہد ترک کر کے پرامن سیاسی تحریک کا آغاز کرنے والے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کی پھانسی کے مطالبے نے جہاں مودی سرکار کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے وہیں ایک بار پھر پورے خطے کو بدامنی کی آگ میں لپیٹ دیا ہے جو آنے والے دنوں میں نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی سنگین مسائل کو جنم دے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس یاسین ملک کو انڈیا مخالف مسلح گروپوں کی فنڈنگ کے الزام میں دو بار عمر قید سنائی گئی تھی، مگر اب بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے اس سزا کو ناکافی قرار دیتے ہوئے عدالت میں اپیل دائر کر دی ہے۔ انوسٹی گیس ایجنسی نے دہلی کی عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ یاسین ملک پر عائد الزامات کی سنگینی سزائے موت کی متقاضی ہے۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی اپیل پر عدالت نے یاسین ملک کو ایک ماہ میں  ردعمل دینے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ اسی دوران این آئی اے نے یاسین ملک کے خلاف 36 برس پرانے کشمیری پنڈت خاتون سرلا بھٹ کے اغوا اور قتل کیس، اور 1990 میں انڈین فضائیہ کے اہلکاروں پر حملے کے کیس کی بھی دوبارہ تفتیش شروع کر دی ہے۔واضح رہے کہ یاسین ملک پر 1990 کے اس حملے کا الزام بھی ہے جس میں چار انڈین فضائیہ اہلکار ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ماضی میں یہ کیس کئی بار چلایا گیا مگر ثبوت نہ ملنے پر انہیں رہا کر دیا گیا۔ اب یہ معاملہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

پاکستان میں موجود یاسین ملک کی اہلیہ، مشال ملک، نے بھارتی ایجنسی کی جانب سے پرانے مقدمات کی از سر نو تفتیش کو’’پھانسی کی تیاری‘‘ قرار دیا ہے۔ مشال ملک کے مطابق یہ تمام مقدمات ’’سیاسی کیسز‘‘ ہیں جن کا مقصد یاسین ملک کو سیاسی طور پر ختم کرنا ہے۔ اسی لئے نہ یاسین ملک کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے، نہ انہیں مکمل قانونی حقوق مل رہے ہیں، حتیٰ کہ آن لائن سماعت کے دوران بھی ان کی آواز بند کر دی جاتی ہے۔’اب عدالت نے یاسین ملک کو ایک ماہ کے اندر اندر نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی کی اپیل پر ردعمل دینے کو کہا ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ایسا ہو پائے گا یا نہیں۔ امکان یہی ہے کہ انھیں پھانسی دے دی جائے گی۔

یاد رہے کہ 2017 میں علیحدگی پسند رہنماؤں پر ’’دہشت گردی کی فنڈنگ‘‘ اور ’’انڈیا مخالف مظاہرے‘‘ کروانے کے الزامات لگے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مارچ 2020 میں یاسین ملک پر دوبارہ مقدمہ قائم کیا گیا۔ تاہم یاسین ملک نے بھارتی حکومت کے الزامات کو چیلنج کرنے سے انکار کر دیا، جس پر 26 مئی 2022 کو انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ مبصرین کے مطابق ’’یاسین ملک کے انکار نے حکومت کو اس کیس کو سیاسی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کا موقع نہ دیا،

 کیا انڈیا کی ہار کے بعد پاکستان میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے؟

واضح رہے کہ61 سالہ یاسین ملک سرینگر کے مرکزی علاقے مائی سوما میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اُن درجنوں نوجوانوں میں شامل تھے جنھوں نے 1987 میں نیشنل کانفرنس کے خلاف بنے مسلم متحدہ محاذ کے تحت انتخابی مہم چلائی۔ان انتخابات میں بے پناہ دھاندلیوں کے خلاف انھوں نے مظاہرے بھی کیے اور گرفتار ہوئے۔چند سال بعد ہی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہو گئے۔ اور جلد ہی فرنٹ کے کمانڈر بن گئے۔انھوں نے سنہ 1994 میں یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر غیرمسلح سیاسی جدوجہد کا اعلان کیا اور عہد کیا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کے لیے سیاسی اور سفارتی کوششیں کریں گے۔یاسین ملک نے سنہ 2007 میں کشمیر کے ہزاروں قصبوں کا دورہ کیا اور ’سفرِ آزادی‘ کی مہم کے دوران نوجوانوں سے اپیل کی کہ پُرامن سیاسی جدوجہد ہی کشمیر کے مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔وہ بعد میں اُس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے نئی دلی میں ملے اور انھیں ’سفر آزادی‘ کی ریکارڈنگ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’کشمیری امن چاہتے ہیں، وہ مذاکرات میں کردار چاہتے ہیں، کشمیر تشدد سے عدم تشدد کی طرف آیا ہے، اس کے احترام میں زیادتیاں بند ہونی چاہیے اور مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔‘ تاہم ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور انھیں مختلف الزامات کے تحت پابند سلاسل کر دیا گیا۔یاسین ملک کی شادی پاکستانی شہری مشال ملک سے ہوئی ہے اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ تاہم مشال ملک برسوں سے بھارت یا کشمیر آنے کی اجازت نہیں ملی۔

Back to top button