ذہانت پر "دیدہ وروں” کی اجارہ داری

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

سیاست کے بارے میں ان دنوں ایک لفظ لکھنے کو بھی دل مائل نہیں ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جسے 1970ء کی دہائی سے ’’سیاست‘‘ سمجھتا رہا وطن عزیز میں عرصہ ہوا ختم ہوچکی ہے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں جنرل ضیاء  نے حبیب جالب کے بتائے ’’یہ جو دس کروڑ ہیں۔جہل کا نچوڑ ہیں‘‘ یعنی گلی محلوں میں رینگتے ’’عوام‘‘ کے منتخب نمائندوں کو غیر جماعتی انتخاب کے نتیجے میں اقتدار واختیار کا ’’چونگا‘‘ دیا۔ سیاستدان اس کے بعد پنجابی محاورے کے مطابق ’’چوڑے‘‘ یعنی ’’اپنی اوقات‘‘ سے بڑھ کر فیصلہ سازی میں حصہ مانگنے لگے تو انہیں بدعنوان ونااہل ٹھہراکر مفلوج کردینے کے منصوبے شروع ہوگئے۔ بالآخر ایک حکومتی بندوبست قائم ہوچکا ہے۔اسے شرمندہ ہوئے بغیر ’’ہائی برڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ خود کو سیاستدان سمجھنے والے اس سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔ اس میں سے اپنے جثے کے مطابق حصے کے حصول سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ فقط ایک سیاستدان اس بندوبست سے خوش نہیں۔ بنیادی وجہ اس کی ’’اصول‘‘ نہیں بلکہ یہ خواہش ہے کہ ’’سیم پیج‘‘ پر سوائے ان کے کوئی دوسرا نہ ہو۔ دوسروں کو ’’سیم پیج‘‘ سے دور رکھنا مگر ممکن ہوتا تو آج بھی وزارت عظمیٰ کے دفتر میں بیٹھے ہوتے۔ دیکھتے ہیں مزید کتنے دنوں تک اپنی ضد پر قائم رہیں گے۔
سیاست سے بے اعتنائی اختیارکرنے کے باوجود یہ حقیقت مگر بھول نہیں سکتا کہ ایک جماعت ہوا کرتی تھی۔ نام تھا اس کا پاکستان پیپلز پارٹی۔ میں بچپن سے نوجوانی کی حدود میں داخل ہورہا تھا تو اس کا قیام میرے آبائی شہر لاہور میں ہوا۔ 1967ء کا برس تھا۔ مجھے اس برس کی Gen-z کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ان دنوں انٹرنیٹ اور سمارٹ فون متعارف نہیں ہوئے تھے۔ ہماری نسل مگر عالمی حالات پر نگاہ رکھتی تھی اور ہمیں گماں تھا کہ دنیا قومی شناخت مٹاکر کامل مساوات پر مبنی سوشلسٹ نظام قائم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی ہمارے وطن میں اس نظام کو توانا تر بنانے کے لئے قائم ہوئی ہے۔ یہ ویسے ہی خیالات تھے جو ان دنوں کی نوجوان نسل عمران خان کی بنائی تحریک انصاف کے بارے میں محسوس کرتی ہے۔
بہرحال پیپلز پارٹی جب بالآخر حکومت میں آئی تو ہم میں سے اکثر نوجوانوں کی اس سے وابستہ امیدیں خاک میں مل گئیں۔ سرجھکا کر رزق کی تلاش میں مجھ جیسے لوگ اس کے بعد ’’صحافی‘‘ ہوگئے۔ اس کے بعد مگر جنرل ضیاء الحق نے سخت گیر مارشل لاء متعارف کروادیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھادئے گئے تو ان کی بیٹی نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ ان کی مزاحمت نے ہمیں حوصلہ دیا۔ ہم ایک بار پھر اپنے حالات تبدیل کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ سپنے کی بھی لیکن منیر نیازی کے مطابق ایک ’’حد‘‘ ہوتی ہے اور وہ مذکورہ’’حد‘‘ کو پار کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔سپنے کی حد دریافت کرکے خاموشی اختیار کرلیتا۔ لکھنا مگر رزق کا وسیلہ ہے۔ جب تک جان میں جان ہے روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہے۔ لکھنے کے لئے موضوعات کا تنوع اگرچہ بے قراری سے درکار ہے۔ تنوع کی عدم موجودگی ان موضوعات پر لکھنے کو مجبور کردیتی ہے جن سے دل اْکتاچکا ہے۔ سیاستدان ان موضوعات میں سرفہرست ہے۔
ذاتی دْکھڑا بیان کرنے کے بعد اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے یاد آپ کو یہ دلانا ہے کہ پیپلز پارٹی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی کمان میں گئی تو ’’چاروں صوبوں کی زنجیر-بے نظیر-بے نظیر ہوگئیں‘‘۔ وقت نے مگر ڈھایا یہ ستم کہ بتدریج یہ جماعت سندھ تک محدود ہوگئی۔ 2013ء  سے وفاقی حکومت اپنے تئیں بنا نہیں پائی ہے۔ ا پریل 2022ء میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد اس جماعت کو وفاقی حکومت میں اہم وزارتیں ملیں۔ وہ مگر 2024ء  کے انتخاب میں کسی کام نہ آئیں۔ 2008ء سے البتہ یہ جماعت مسلسل سندھ کی صوبائی حکومت تشکیل دیتی چلی آرہی ہے۔
اس کے اندازِحکومت (گورننس) کے بارے میں سندھ سے دوربیٹھے تبصرہ نگار عموماََ منفی تاثر پھیلاتے ہیں۔ میں نے پیپلز پارٹی کے کئی ناقدین سے البتہ یہ رائے تواتر سے سنی ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے کم از کم صحت کے شعبے میں مختلف شہروں اور قصبات میں جدید ترین آلات سے لیس ادارے قائم کئے ہیں۔ عالمی اداروں سے وابستہ کچھ ماہرین سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبوں کو بھی سراہتے ہیں۔ وہ منصوبے جن کی تعریف ہوتی ہے لیکن نام نہاد مین سٹریم میڈیا کی بدولت عوام کی اکثریت کی نگاہ میں نہیں آتے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے پیپلز پارٹی اپنے نام نہاد ’’گڑھ‘‘ یعنی سندھ میں شدید مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔ وجہ اس کی چھ نئی نہروں کی تعمیر ہے جن کا ہدف چولستان آباد کرنا بتایا جارہا ہے۔ جب یہ منصوبہ پہلی بار منظر عام پر آیا تو میں نے نہایت عاجزی سے التجا کی تھی کہ مذکورہ منصوبے کو کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بناکر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل نہ بنادیا جائے۔ پاکستان جیسے ممالک کی مصیبت مگر ’’ٹاپ ڈائون‘‘ ترقی کا ماڈل ہے۔ فرض کرلیا جاتا ہے کہ کوئی ’’دیدہ ور‘‘ یا ’’دیدہ وروں‘‘ پر مبنی گروہ ہی مستقبل کو تابناک بنانے کے منصوبے سوچ سکتا ہے۔ جاہل عوام انہیں سوچنے کے قابل نہیں۔
ذہانت پر ’’دیدہ وروں‘‘ کی اجارہ داری تسلیم کرنے کو میں دیانتداری سے آمادہ ہوں۔ کسی آئیڈیا یا خیال کو مگر مارکیٹ بھی کرنا ہوتا ہے۔ چائے مثال کے طورپر پنجاب کی ثقافت کا حصہ نہیں تھی۔ ہم تاریخی اعتبار سے مشروب کا مطلب فقط لسی شمار کرتے تھے۔ انگریزوں نے مگر جب اس خطے میں چائے متعارف کروائی تو شہروں کے اہم مقامات پر اسے لوگوں کو مفت فراہم کرنے کا بندوبست ہوا تھا۔ اسی بندوبست کی بدولت بتدریج ہم چائے کے عادی ہوئے۔

جنگل میں رات اور خواب کی تھکن

ان دنوں دریاؤں سے نئی نہریں نکال کر ریگستان کو سرسبزوشاداب کرنے کا منصوبہ عوام کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔ ہمارے دریائوں میں پانی کی مقدار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بتدریج کم ہورہی ہے۔ اہم ترین سوال اس وقت یہ ہے کہ جو رقبے آباد ہیں ان کی شادابی و زرخیزی برقرار رہے۔ حالیہ بارشوں کے باوجود خریف کی فصل کے لئے ہمیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 27فی صد کم پانی ملنے کی توقع ہے۔ ہماری ضرورت سے کم ہوئے پانی کا رخ نئی زمینیں آباد کرنے کو موڑنا لوگوں کو ہرگز پسند نہیں آئے گا۔ بجائے اس امر پر توجہ دینے کے سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے وہاں کے عام کسانوں کے دل ودماغ میں مدتوں سے موجود اس تعصب کو بھڑکانا شروع کردیا کہ پنجاب سندھ کا پانی ’’چوری‘‘ کرنے کا ایک منصوبہ بنارہا ہے۔ یہ کہانی پھیلاتے ہوئے تاثر یہ بھی فروغ دیا گیا کہ اپنا اقتدار بچانے کے لئے پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں مذکورہ منصوبے کی ’’منظوری‘‘دے دی ہے۔ منظوری کا یہ تاثر اس وقت بھی رد نہ ہوا جب آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چولستان آباد کرنے کی خاطر نئی نہروں کے قیام کی مخالفت کی۔ بلاول بھٹو زرداری کو اب شہر شہر جاکر وضاحتیں دینا پڑرہی ہیں۔ سیاسی اعتبار سے پیپلز پارٹی اپنے نام نہاد ’’قلعہ‘‘ میں سخت دشواری کا سامنا کررہی ہے۔ اس کی دشواری کو مگر سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔

Check Also
Close
Back to top button