موٹروے ریپ کیس: ملزمان انجام تک کیوں نہ پہنچ سکے؟

پاکستان میں لاہور سے سیالکوٹ جانے والی موٹروے پر ریپ کے واقعے کو آج تین برس ہوگئے ہیں لیکن اس واقعے کے ملزمان کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔

خیال رہے کہ 2020 میں آٹھ اور نو ستمبر کی درمیانی شب لاہور سے سیالکوٹ جانے والی موٹر وے پر ایک خاتون کو ان کے دو بچوں کی موجودگی میں اس وقت اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا جب مظلوم خاتون پیٹرول ختم ہونے کے باعث گاڑی روک کر مدد کا انتظار کر رہی تھیں۔عابد ملہی اور شفقت علی نامی مجرمان نے ان کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر بچوں سمیت گاڑی سے باہر نکالا، خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ویرانے میں ان سے جنسی زیادتی کی۔مجرموں نے متاثرہ خاتون کی گاڑی سے نقدی، زیور اور ان کے کریڈٹ کارڈز بھی چوری کیے تھے۔واقعے کے مرکزی مجرم عابد ملہی اور شفقت علی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 20 مارچ 2021 کو سزائے موت سنائی تھی، جسے اب دو برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے تاہم ان کو لٹکایا نہیں گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے نجی ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامہ سیریل ’حادثہ‘ میں دکھائے گئے واقعات کی تین برس قبل پیش آنے والے موٹر وے ریپ کیس کے ساتھ مماثلت کے باعث ہولناک واقعے کا دوبارہ روایتی اور سوشل میڈیا پر تذکرہ چھڑ گیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کی جانب سے فراہم کیے گئے پانچ سال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ پانچ برس کے دوران پاکستان میں6317 ریپ کیسسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 5116 پنجاب اور 900 سندھ میں وقوع پذیر ہوئے۔ایچ آر سی پی کے مطابق ریپ کیسسز میں 2019 سے 2021 تک بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

اس حوالے سے ایڈوکیٹ میاں داؤد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشہور موٹر وے ریپ کیس کے بعد کوئی قانون سازی عمل میں نہیں لائی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ زینب کیس کے بعد زینب الرٹ لیجسلیشن کی گئی تھی لیکن وہ بھی برائے نام ہی ثابت ہوئی۔حکومت نے اینٹی ریپ انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل ایکٹ2021 متعارف کروایا اور انسداد دہشت گردی کے قانون کے بعد یہ واحد ایسا ایکٹ آیا جس کا سیکشن نو ریپ کی تفتیش جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم  یعنی جے آئی ٹی کے ذریعے کروانے کو ضروری قرار دیتا ہے۔ایڈوکیٹ داؤد کے مطابق یہ ایکٹ 2020 میں آرڈیننس کے ذریعے لاگو کیا گیا تھا لیکن ترمیم کے بعد یہ 2021 میں نوٹیفائی ہوا تھا۔انہوں نے کہا قانون پر فوری عمل درآمد سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود پنجاب میں اب تک ریپ کیسز کی تفتیش پرانے طریقوں پر غیر تربیت یافتہ پولیس افسران کر رہے ہیں۔

ایڈوکیٹ میاں داؤد نے ریپ کے مقدمے میں اپنی ایک موکلہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’اس بچی نے بھی عدالت میں اس قانون پر عمل درآمد کی درخواست دے رکھی ہے اور ان کے کیس کی تفتیش تین پولیس افسران سے کروائی جائے۔‘

لاہور ہائی کورٹ نے ایک ریپ کیس کے فیصلے میں پنجاب حکومت کو جنسی جرائم کی تفتیش کے لیے تحقیقاتی یونٹ تشکیل دینے اور پولیس افسران کو تربیت دینے کی ہدایت دی ہے۔ایڈوکیٹ میاں داؤد کا کہنا تھا کہ زینب کیس میں مجرموں کی اپیلیں اور صدر کے پاس رحم کی اپیل کو جلد ہی نمٹا دیا گیا تھا اور اسی لیے ان کی سزا میں تاخیر نہیں ہوئی۔’دوسری طرف موٹر وے کیس کے ملزمان کی اپیلیں اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہیں اور میرے خیال میں تاخیر عدالتوں کی غیر سنجیدگی کے باعث ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے موٹر وے ریپ کیس کے مجرمان کی سزاؤں پر عمل درآمدمیں تاخیر کے حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے بھی دریافت کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ایک لمبا عمل ہے، جس میں اپیل کا عمل طویل ہوتا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا: ’پنجاب پولیس نے اس کے لیے خدمت ایپ متعارف کروائی ہے اور ہراسمنٹ کی صورت میں تھانے آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘خواتین کے حقوق کے لیے متحرک سدرہ ہمایوں کے خیال میں معاشی حالات کے باعث خواتین ریپ کیسسز میں دوسروں پر انحصار کرتی ہیں، جس کے باعث انہیں انصاف کے حصول میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے ریپ کیسز میں میڈیا کے کردار پر بھی تنقید کی اور اس سلسلے میں انہوں نے اسلام آباد ٹریل فائیو، بہاولپور یونیورسٹی جنسی ہراسانی اور کراچی یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعات کی مثالیں دیں۔’جب ایف آئی آر کٹتی ہے تو اس پر متاثرہ خاتون کا فون نمبر بھی لکھا ہوتا ہے۔ وہ ایف آئی آر سوشل میڈیا کے ذریعے ہر کسی کو مل جاتی ہے اور لوگ اس فون نمبر پر رابطہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ خواتین اسی چیز سے ڈر کر فون نمبر بند کر دیتی ہیں۔‘

Back to top button