عمران فوجی نمائندے سے ملاقات کو تیار، لیکن دوسری جانب سے انکار

حالیہ پاک بھارت جنگ کے خاتمے کے بعد عمران خان کے ساتھیوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے بانی کی رہائی کے لیے مذاکرات کی کوششیں تیز کر دی ہیں، بلکہ اس مرتبہ تو بانی پی ٹی آئی نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں سے ملاقات پر بھی رضامندی ظاہر کر دی ہے، لیکن دوسری جانب حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران کی اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خواہش اب ایک یکطرفہ عمل ہے، انکے مطابق اگر پہلے مذاکرات کا کوئی امکان تھا بھی تو وہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے بھارت نواز رویہ اپنانے کی وجہ سے اب ختم ہو چکا ہے۔
اسلام آباد میں باخبر حلقوں نے سختی سے یوتھیوں کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ عمران خان کو کسی ڈیل کی پیشکش کی گئی ہے۔ تاہم انکا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ضرور پس پردہ خاموشی سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں ابھی تک اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے ایک طرف عمران خان کے ڈٹے رہنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب پس پردہ عسکری اور حکومتی شخصیات سے منت ترلہ سیشن بھی جاری ہے تاکہ خان کے لیے کوئی ریلیف حاصل کیا جا سکے۔ چونکہ پی ٹی آئی عوامی سطح پر یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ عمران رہائی کے لیے مذاکرات چاہتے ہیں لہٰذا ان کے قریبی ساتھی ایسی کسی بھی پیشرفت کو میڈیا کی چکاچوند سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید اسی وجہ سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔ دراصل فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنی رہائی کے لیے کھلے عام مذاکرات کی بات کریں۔ لیکن دوسری جانب عمران کی جانب سے پس پردہ مذاکرات کے لیے رازداری اسلئے اہم سمجھی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے حامیوں اور ناقدین دونوں کے غم و غصہ سے بچا جا سکے۔
تاہم، سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی وجہ سے پی ٹی آئی کو اپنی ہی صفوں میں سے ملا جلا رد عمل مل رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر عمران خان کی بہن علیمہ خان نے تردید کی ہے کہ عمران خان نے شہباز شریف کی طرف سے مذاکرات کی تازہ ترین پیشکش کا مثبت جواب دیا ہے۔ علیمہ کے اس بیان نے کنفیوژن میں اضافہ کر دیا ہے۔ انصار عباسی کے مطابق گزشتہ ہفتے ایک اہم موقع آیا تھا جب پی ٹی آئی چیئرمین گوہر علی خان نے دیگر وکلاء کے ہمراہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران، عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے دیگر وکلاء سے درخواست کی کہ وہ باہر چلے جائیں کیونکہ انہیں عمران خان اور گوہر علی خان سے اکیلے میں کچھ بات کرنا تھی۔ یہ تو ایک راز ہی ہے کہ اکیلے میں ان کی آپس میں کیا بات ہوئی۔ لیکن بعد میں بیرسٹر گوہر خان نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ عمران نے انکو بیک چینل مذاکرات کیلئے آگے بات چلانے کا کہا ہے۔
عمران کے یوتھیوں کو فوج کی جیت ہضم کیوں نہیں ہو پا رہی؟
سینیئر صحافی کے مطابق سب سے اہم بات یہ کہ بیرسٹر گوہر خان نے پارٹی رہنماؤں کو بتایا کہ اب تو عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے سے ملاقات کیلئے بھی تیار ہیں۔ اس انکشاف نے پارٹی قیادت کو غیر یقینی کی صورتحال میں مبتلا کر دیا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان جیل سے باہر آنے کے لیے مذاکرات کی خواہش کا اظہار برسر عام کر دیتے ہیں یا اپنے ڈٹے رہنے کے موقف پر ہی قائم رہیں گے۔
عمران کی اڈیالہ جیل میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کسی نمائندے سے ملنے کے امکانات پر ایک سوال کے جواب میں شیخ وقاص نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کو عمران کنٹرول نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی صرف وہی لوگ عمران سے مل سکتے ہیں جنہیں بھائی لوگوں نے اجازت دی ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ملاقاتوں سے متعلق عمران کی پسند کی کوئی اہمیت نہیں اور اس حوالے سے تمام فیصلے بھی اصل فیصلہ ساز ہی کرتے ہیں جو اس ملک کو چلا رہے ہیں۔