یوتھیوں کو معافی ملنے پر مسلم لیگ شہباز اور نواز دھڑوں میں تقسیم

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے 9 مئی کے ہنگاموں میں ملوث تحریک انصاف کے کارکنان کی معافی اور رہائی کے فیصلے سے مسلم لیگ کا نواز دھڑا خوش نہیں ہے۔ اس معاملے پر مسلم لیگ شہباز اور نواز دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے، پارٹی کا شہباز دھڑا فوجی قیادت اور اس کے فیصلوں کے ساتھ ہے جبکہ نواز دھڑا عمران خان اور انکی جماعت کو ملنے والی ریلیف کی مخالفت کر رہا ہے۔
سہیل وڑائچ نے اپنی تازہ تحریر میں مسلم لیگ کے نواز اور شہباز دھڑوں کی باہمی چپکلش کو ایک فرضی ڈائیلاگ کی صورت میں بیان کیا ہے۔ آئیے نوازی اور شہبازی کرداروں کے آپسی ڈائیلاگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں:
نوازی: یہ آپ نے کیا کروا دیا۔ 9 مئی کے ملزموں کو معاف کروادیا اور اُن عادی مجرموں“ نے رہا ہوتے ہی بڑھکیں مارنی شروع کر دی ہیں۔ ایسے تو کام نہیں چل سکتا۔
شہبازی: یہ فوج کا فیصلہ ہے، اکثر مجرم تو اپنی سزائیں پوری کر چکے تھے، انہیں ویسے بھی سول عدالتوں نے رہا کر دینا تھا پھر انہوں نے رحم کی اپیلیں بھی داخل کی تھیں، انہوں نے اپنے جرم کی معافی بھی مانگی تھی۔
نوازی: معافی کا فیصلہ اور تحریک انصاف کے درجنوں قیدیوں کی سول عدالتوں سے رہائی ایک ہی سکیم کا حصہ ہے، اندرون خانہ کچھ چل رہا ہے، اس سب کا فائدہ تحریک انصاف کو ہو رہا ہے جبکہ نقصان مسلم لیگ کا ہورہا ہے۔
شہبازی: فوجی قیادت کی جانب سے ملکی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہو گا۔ ہمیں تدبر سے کام لینا ہو گا، سر عام اس فیصلے پر تنقید مناسب نہیں، ایسی باتیں صرف اندرونی محافل میں کی جاتی ہیں ، میڈیا میں اس طرح کے ایشوز کو اٹھانا مناسب نہیں ہے۔
نوازی: آپ عجیب بات کر رہے ہیں، ہماری سیاست تباہ کر دی گئی ہے، اب اندرون خانہ عمران خان اور تحریک انصاف سے ڈیل کی کوششیں ہو رہی ہیں، اگر ہم نے دباؤ نہ رکھا تو ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے۔
شہبازی: حوصلہ رکھیں، تحریک انصاف یا عمران خان کو کوئی ایسی رعایت نہیں ملے گی جس سے ہماری حکومت کمزور ہو یا ان کے آنے کا راستہ ہموار ہو، زیادہ سے زیادہ انہیں سسٹم اور الیکشن کو قبول کرنے کے بدلے میں لمبی قید سے چھٹکارا مل سکتا ہے اور وہ بھی مکمل خاموشی اور بنی گالا میں نظر بندی کے بدلے۔
نوازی: ہم نے 8 فروری کے الیکشن سے لے کر آج تک فوجی قیادت کی ہر بات مانی ہے، حالانکہ ہمیں فوج کے ساتھ ملنجانے سے بہت ذیادہ سیاسی نقصان ہوا ہے، ہمارا ووٹ بینک کم ہوا، ہماری مقبولیت آج بھی ہچکولے کھا رہی ہے، ایسے میں فوجی قیادت کو بھی چاہیے کہ بڑے سیادی فیصلوں میں ہم سے مشورہ کرے، کیا انہیں 9 مئی کے مجرموں کی رہائی بارے ہم سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے تھا؟
شہبازی: بھائی لوگوں کے ساتھ دوری اور اجنبیت آپ کی طرف سے زیادہ ہے۔ نہ آپ فوجی قیادت سے ملتے ہیں اور نہ ہی ان کے قریبی لوگوں سے ملاقات اور مشوروں کا تکلف کرتے ہیں۔ سارا کام آپ نے شہباز شریف پر چھوڑا ہوا ہے جو پارٹی، اتحادیوں اور فوج سب سے اکیلا ہی ڈیل کرتا ہے، آپ میں سے کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔
نوازی: ہم نے تو اپنے ہاتھ کاٹ کے آپ کو اور فوجی قیادت کو دے رکھے ہیں، اب بڑے میاں صاحب نے مریم اور شہباز کے آپسی معاملات بہتر بنانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے، انہوں نے وفاقی کابینہ میں توسیع کی بھی اجازت دے دی ہے، مختصر یہ کہ ہم نے تو ساری نون لیگ پلیٹ میں رکھ کر آپ کو دے رکھی ہے۔
شہبازی: ہماری طرف سے بھی تابع فرمانی اور وفاداری میں کوئی کمی نہیں۔ آج تک تو ایسا کوئی سیاسی یا انتظامی فیصلہ نہیں کیا گیا جس کی بڑے میاں صاحب سے منظوری نہ لی گئی ہو۔
نوازی: عین مذاکرات کے موقع پر 9 مئی کے ملزموں کی رہائی ہمارے لئے پیغام ہے کہ فوجی قیادت کسی وقت بھی عمران خان سے صلح کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم نونی کہاں جائیں گے؟ ہمارا بیانیہ پہلے ہی اڑ چکا ہے اور اگر ایسا ہوا تو حکومت بھی ہل جائے گی۔
شہبازی: یہ سب آپ کا وہم ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ مفاہمت کے بیانات تو پہلے ہماری ہی جماعت نے دیئے تھے، مذاکرات بھی ہمارے ہی سپیکر کروا رہے ہیں، جن میں ابھی تک کوئی پیش رفت بھی نہیں ہوئی، آپ کیوں تشویش میں مبتلا ہیں؟ فوج میں بہت سمجھدار لوگ بیٹھے ہیں، انہیں اچھی طرح سے علم ہے کہ تحریک انصاف کو ڈھیل ملی تو وہ نہ ہمیں چھوڑے گی اور نہ فوجی قیادت کو۔ خاطر جمع رکھیے کہ فوج تحریک انصاف اور عمران خان پر اعتبار کرنے کو بالکل تیار نہیں۔
نوازی: دیکھیں ابھی تو ہمارے 8 فروری کے زخم بھی نہیں بھرے۔ جس طرح نواز شریف کو وزارت عظمی کی دوڑ سے باہر کیا گیا وہ زخم ہمارے دلوں کو چیر گیا۔ یہ تو نواز شریف کی عملیت پسندی اور حقیقت پسندی ہے جس نے بہترین سیاسی فیصلہ کر کے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور اپنی بیٹی مریم کو وزیر اعلیٰ بنوا کر سب کچھ گنوانے کی بجائے بہت کچھ حاصل کر لیا۔ بصورت دیگر، اگر نواز شریف غصے میں آکر فیصلہ کرتے تو نہ تو فوجی قیادت کہیں کی رہتی اور نہ ہی مسلم لیگ کی سیاست بچتی۔
شہبازی: آپ کی بات درست ہے، نواز شریف کی عقل و فراست پر تو کوئی سوال نہیں، وہ اس وقت جنوبی ایشیا کے سب سے تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ وہ 34 سال پہلے، پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے جب مودی سیاسی منظر پر ابھرے بھی نہیں تھے اور آج کے بہت سے نامی گرامی ابھی جونیئر عہدوں پر تھے۔
نوازی: آپ اچھے منیجر ہیں، فوج کے ساتھ چلنے میں بھی آپ کو بہت مہارت ہے، لیکن ہمارے لیڈر کا ویژن آپ سے بالکل مختلف ہے۔ بڑے میاں صاحب فوج کے ساتھ بہترین تعلقات چاہتے ہیں مگر ان کا ایک فلسفہ سویلین سپریمیسی بھی ہے، اگر تحریک انصاف کا فتنہ کھڑا نہ کیا جاتا تو آج پاکستان ایک مختلف ریاست ہوتی۔
شہبازی: عملیت پسندی کا تقاضا ہے کہ فی الحال ہائبرڈ نظام کا حصہ بن کر اپنی جگہ بنائیں اور اچھی گورنس کر کے اہنی جماعت کی سیاسی ساکھ بحال کریں۔
نوازی: بات تو ٹھیک ہے مگر ہائبرڈ نظام، اور ہر وقت کی مصالحت اور سمجھوتے ریاست کیلئے ٹھیک نہیں۔ فارن پالیسی کے بارے میں بھی نواز شریف سے کوئی مشاورت نہیں کی جارہی۔ افغانستان، بھارت اور امریکہ کے حوالے سے نواز شریف کا بے پایاں تجربہ ہے مگر ان سے کوئی رہنمائی لینے کو تیار ہی نہیں۔
شہبازی: آپ کی مہربانی سے اب وفاق اور پنجاب کے آپسی معاملوت کچھ بہتر ہوئے ہیں وگرنہ پنجاب تو وفاق کیلئے نو گو ایریا بنا ہوا تھا، ہماری اس تقسیم سے اہلِ سیاست، ہمارے اتحادیوں اور فوج کو غلط اشارے مل رہے تھے اور ہم پر ہمارے ساتھیوں کا اعتماد تیزی سے کم ہورہا تھا۔
نوازی: ہماری مکمل حمایت شہباز شریف کے ساتھ ہے لیکن ہم فوجی سائے میں رہ کر عوامی سیاست نہیں کر سکتے، ایسے ہی چلتا رہا تو پارٹی عوام میں فارغ ہو جائے گی، سیاسی فیصلے ہمارے ہاتھ میں ہونے چاہئیں، فوجی قیادت کا ہر سیاسی فیصلہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔
شہبازی: آپ کی فاج کے بارے میں رائے ماضی سے جڑی ہے، موجودہ عسکری قیادت ماضی سے بالکل مختلف ہے، ہمیں اپنی عینک بدلنی چاہیے۔ موجودہ فوجی قیادت ہماری مدد کر کے واقعی پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرنا چاہتی ہے، اسے فی الحال تو خود اقتدار میں آنے سے دلچسپی نہیں، اسی لئے میں موجودہ فوجی قیادت کا دل و جان سے حامی ہوں۔
نوازی: فوج کے ماضی کے فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں، خصوصا سیاست کے بارے میں ان کے فیصلے وقتی رجحانات پر مبنی ہوتے ہیں۔ عمران خان کا بت بھی تو انہوں نے ہی تراشا تھا، ہماری حکومت ملک کو معاشی ترقی کی طرف لے جا رہی تھی مگر یکا یک پہلے جنرل راحیل شریف اور پھر جنرل قمر باجوہ نے ججوں کی مدد سے ہمیں گھر بھیج کر معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔
کیا جنرل فیض عمران خان کیخلاف سلطانی گواہ بننے والے ہیں؟
شہبازی: موجوده فوجی قیادت تسلیم کرتی ہے کہ ماضی کی عسکری قیادت نے غلط فیصلے کئے، اسی لئے پاکستان معاشی طور پر کمزور اور سیاسی طور پر تقسیم ہے۔ موجودہ فوج کو یہ احساس ہے کہ عمران کا بت انہی کے ادارے نے تراشا ہے اور وہی اس بت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ آج وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اپنی غلطیوں کا مداوا ہی تو کر رہے ہیں۔
نوازی: یہ تو ٹھیک ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ سیاست کی کنجی ہمارے ہاتھ میں ہو۔