ہندوتوا کی بالا دستی کا ورثہ چھوڑنے کا متمنی نریندر مودی

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

اس واقعہ کو تقریباََ آٹھ ماہ گزرچکے ہیں۔ چند دوستوں کی مہربانی سے ایک ایسے صاحب کے ساتھ ملاقات ہوگئی جو ہمارے کئی مشہور برانڈز کے لئے گہری تحقیق کے بعد اشتہاری مہم تیار کرتے ہیں۔ اشتہاری مہم تیارکرنے والی کمپنیاں اس امر کو ترجیح دیتی ہیں کہ جو ’’سودا‘‘ بیچنا ہے وہ نوجوان نسل میں زیادہ سے زیادہ مقبول ہو۔ ان کے دل جیت لینے کے لئے جو شے مارکیٹ میں فروخت کے لئے متعارف کروائی جائے اس کے لئے یوں ’’تاحیات وفادار‘‘ تیار کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ میرے پاس مادی اعتبار سے بیچنے کو کوئی سودا نہیں۔ اشتہارات تیار کرنے کے دھندے سے بھی کبھی تعلق نہیں رہا۔
نوجوانوں کے ذہنوں میں موجود خیالات کاخوب جائزہ لینے کے بعد ان میں سے ’’تاحیات وفادار‘‘ڈھونڈنے کا رحجان مگر اب دنیا بھر کی کئی سیاسی جماعتیں بھی بہت سنجیدگی سے اپنارہی ہیں۔ لکھنے کو محض رزق کمانے کا ایک وسیلہ سمجھنے کو ہمارا خود پسند ذہن تیار نہیں ہوتا۔ اس گماں میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارے لکھے الفاظ لوگوں کی ’’رائے‘‘ بناتے ہیں۔ ’’ذہن سازی‘‘ کے فن پرگرفت کی بدولت پھنے خان سیاستدان ہم سے خائف رہتے ہیں۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کے بعد سے ویسے بھی ہمارے ہاں ’’یوتھ بلج( Bulge Youth)‘‘کا تواتر سے ذکرہوتا ہے۔ سیاست پرلکھنے والوں کی کثیر تعداد مصر ہے کہ کرشمہ سازعمران خان کی بنائی اس جماعت نے اشتہاری مہم تیار کرنے کے جدید ترین ہتھکنڈے اختیارکرتے ہوئے ’’نظام کہنہ‘‘سے اْکتائی ’’نئی نسل‘‘ میں تاحیات وفاداروں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کرلی ہے۔ ریاست کے دائمی اداروں اور عمران مخالف سیاستدانوں کے پاس تحریک انصاف کے مرتب کئے ’’بیانیے‘‘ کا موثر توڑموجود نہیں۔
مذکورہ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اشتہارات کے ذریعے ’’تاحیات وفادار‘‘ تیارکرنے والے ماہرسے درخواست کی کہ وہ مجھے نوجوان نسل کی تازہ ترین ترجیحات سے آگاہ کرے۔ میں ان سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی ان ترجیحات کواپنی تحریروں کا موضوع بنائے رکھوں توتھوڑی ’’مشہوری‘‘ نصیب ہوجائے گی۔ جس ’’ماہر‘‘ سے گفتگو ہورہی تھی وہ مفت مشورہ دینے کے عادی نہیں ہوتے۔ لمحہ مگر مہربان تھا۔میرے سوال کے جواب میں انہوں نے نوجوانوں کی توجہ کے حصول کے چند ’’نسخوں‘‘کا ذکرکیا۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے اس پہلو پرزور دیتے رہے کہ نوجوانوں کے اذہان تک پہنچنے کے لئے لازمی ہے کہ اپنے پیغام کو سنجیدہ انداز سے پیش کرنے کے بجائے نوجوانوں کو’’انٹرٹین‘‘کرنے کے ڈھنگ ڈھونڈے جائیں۔ مزاح اس ضمن میں کلیدی کردارادا کرتا ہے۔
پھکڑپن کا پیدائشی لاہوری ہونے کی وجہ سے فطری عادی رہا ہوں۔ بعدازاں مگر چند کتابیں ضرورت سے زیادہ غور سے پڑھ لیں۔ عمر نے بھی اب ’’دنیا بدلنے‘‘کی خواہش سے بیگانہ کردیا ہے۔قوت بینائی بچائے رکھنا ترجیح رہتی ہے۔ اس کے علاوہ داڑھوں کوکھانا چبانے کے قابل بنائے رکھنے کے لئے دانتوں کے ڈاکٹر کے ہاں بھی اکثر جانا پڑتا ہے۔ مہربان ماہر کے بتائے نسخے سن کر احساس ہوا کہ لکھنے کے بجائے چنے بیچنے والی ریڑھی لگالوں توشاید رزق کمانے کا لکھنے سے بہتر طریقہ میسرہوجائے۔ بہرحال رات گئی بات گئی ہوگئی اور میں اپنے معمولات کے مطابق زندگی گزارتا رہا۔
گزشتہ ہفتے منگل کی سہ پہر مگر مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردی کی ایک بڑی واردات ہوئی۔وہاں موجود 26 کے قریب سیاحوں کا وحشیانہ قتل پاکستان اور بھارت کے مابین پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث ہوا۔ بھارتی وزیراعظم اس واقعہ کی وجہ سے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران طے شدہ ملاقاتیں بھلاکروطن لوٹنے کو مجبورہوئے۔ دلی ایئرپورٹ اترتے ہی موصوف نے اپنے معاونین سے اپنے دفتر جانے کے بجائے وہیں بیٹھ کر ہی بریفنگ لی۔ ایسا اندازاختیار کیا جو عندیہ دے رہا تھا کہ پاکستان کو مذکورہ واقعہ کا ذمہ دار ٹھہراکر’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے جارحانہ اقدامات لئے جائیں گے۔ طویل مشاورتوں کے بعد مگر سندھ طاس معاہدہ معطل ہوا ہے۔ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی سہولت دونوں ملکوں کے عوام کو پہلے ہی میسر نہیں۔ جن خواص کواس تناظر میں ویزے دئے جاتے ہیں وہ منسوخ کردئے گئے۔
ذاتی طورپر مجھے حقیقی دْکھ ویزے کی اس قسم کے خاتمے پرہوا جسے ’’میڈیکل ویزا‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت میں جگر اورمثانے کی پیوندکاری ہمارا متوسط طبقہ معاشی اعتبارسے برداشت کرسکتا ہے۔کئی افراد اپنے اثاثے بیچ کریا دوستوں سے قرض لے کران دومقاصد کیلئے ’’میڈیکل ویزا‘‘ حاصل کرتے ہیں۔ ایسے مریضوں کوبھی لیکن حکم ہوا ہے کہ وہ 29اپریل تک بھارت سے نکل جائیں۔ جگر اور مثانے کے علاج کیلئے بھارت گئے مریضوں کو مختصرترین وقت میں وہاں سے نکل جانے کے حکم نے مجھ جیسے لوگوں کوپیغام دیا کہ جنگی جارحیت کے حوالے سے بھارت 29اپریل 2025ء کے بعد ’’کچھ بڑا‘‘ کرنے کے چکرمیں ہے۔

27 فروری 2019

میری فکرمندی مگرگزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں سوشل میڈیاکا بغورجائزہ لیتے ہوئے ختم ہوگئی۔پاک-بھارت جنگ کے امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے بارے میں فکر مند ہونے کے بجائے ہمارے ہاں سوشل میڈیا پرچھائے نوجوانوں نے ایسے ’’میمز‘‘ تیار کئے جنہوں نے جگتوں اورپھکڑپن کے ذریعے ’’دشمن‘‘ کوزیرکردیا۔ اس ضمن میں تیار ہوئے اورسوشل میڈیا پر وائرل ہوئے چند پیغامات اور میمز مزاح تخلیق کرنے کے حوالے سے یقینا اعلیٰ ترین معیار کے حامل ہیں۔ہماری ایک نوجوان ساتھی ہیں۔ نام ہے ان کا آئمہ کھوسہ۔ انہوں نے اس رحجان کا جائزہ لیتے ہوئے’’دوقومی نظریہ‘‘ کومزاحیہ انداز میں ان دنوں ’’ایکس‘‘ کہلاتے ٹویٹر پلیٹ فارم پر بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق ایک قوم (یعنی پاکستانیوں)کا مزاح تخلیق کرنے کے فن پر اجارہ ہے جبکہ دوسری قوم کو یہ ہنر نصیب نہیں۔ آخری مرتبہ میری جب اس ٹویٹ پر نظر پڑی تواسے دس لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھنے کے بعد شیئر اور لائیک کرچکے تھے۔ نوجوان نسل پس ثابت ہوا کہ ہر صورت ’’انٹرٹینمنٹ‘‘کی متلاشی ہے۔ اس کی خاطر وہ جنگی ماحول کوبھی سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں۔’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ- گھبرائیں کیا‘‘کی اس سے بہترعملی زندگی سے مثال ملنا ممکن نہیں۔حس مزاح سے بیگانہ ہوا میرا وسوسے بھرا دل مگراب بھی اس سوچ پر اٹکا ہوا ہے کہ آر ایس ایس جیسی انتہا پسند کے پرچارک کی حیثیت میں اپنا سیاسی کیرئیر شروع کرنے والا نریندر مودی بھارت کا تیسری باروزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد جوورثہ یا Legacyچھوڑنے کا متمنی ہے وہ جنوبی ایشیاء￿ میں ہندوتوا کی بالادستی ہے اور اس کے حصول کے لئے وہ جارحانہ اقدامات لینے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کوتیار ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بالآخر میری فکرمندی درست ثابت ہوتی ہے یا ہمارے نوجوانوں کی مزاح سے بھرپور بے فکری۔

Back to top button