جنرل فیض حمید کے ریٹائرمنٹ کے بعد کے جرائم کی داستان

طاقت کے نشے میں چور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نہ صرف دوران ملازمت بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں رہے،تاہم پی ٹی آئی کی مکمل حمایت کی وجہ سے جنرل فیض حمید کو یہ گمان تھا کہ وہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ رہے ہیں انھیں کون گرفت میں لا سکتا ہے تاہم جب ان کی سرکشی حد سے تجاوز کر گئی اور انھوں نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اپنے ہی ادارے  یعنی فوج میں بغاوت کی سازش رچائی تو نہ صرف ان پر شکنجہ کسا گیا بلکہ ان پر فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد اب ان کا انجام بھی قریب نظر آتا ہے۔تاہم مبصرین کے مطابق جنرل فیض حمید اپنی سرکشی کے اکیلے ذمہ دار نہیں تھے بلکہ انھیں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی مکمل حمایت اور آشیرباد حاصل تھی اس طرح جنرل فیض کے جرائم میں عمران خان کو بھی برابر کا شریک قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی وہ عمران خان کی زیر کمان تمام تخریبی کارروائیاں انجام دے رہے تھے۔

خیال رہے کہ گرفتاری کے تقریباً 4 ماہ بعد خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر باضابطہ طور پر فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔جنرل فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا ہے جبکہ اب ان پر لگائے جانے والی فردِ جرم میں سیاسی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کی تحقیقات ہوں گی جبکہ انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کسی شخص کو ناجائز طور پر نقصان پہنچانے کے لیے بھی قابل احتساب ٹھہرایا جائے گا۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طویل عرصے سے زیرِالتوا مقدمہ واقعی اس بار نمٹ جائے گا یا یہ اصل مسئلے کو چھپانے کی ایک اور کوشش ثابت ہو گی؟

مبصرین کے مطابق وہ لوگ جو جنرل فیض حمید کی سرگرمیوں سے واقف ہیں وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ جنرل فیض حمید نے اپنی مدت اقتدار میں نہ صرف حدود کی پامالی کی بلکہ ڈی جی آئی اور پھر ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر انہوں نے بھرپور طریقے سے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اپنی مخالفت کرنے والوں کو سخت سے سزا دی۔جب 2018ء کے انتخابات کی ’منیجنگ‘ میں جنرل فیض کا نام سامنے آیا تو انھوں نے اپنے مکروہ طریقے سے مخالف سیاست دانوں کو خوفزدہ کرنے اور میڈیا کو خاموش اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔

مبصرین کے مطابق ایسا نہیں تھا کہ جب یہ ’جرائم‘ ہورہے تھے، اس وقت جنرل فیض کسی کی نظروں میں نہیں آئے تھے۔جنرل فیض حمید یہ سب کھلے ہاتھوں اس لیے کیے جارہے تھے کیونکہ انہیں نہ صرف اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی حمایت حاصل تھی بلکہ اس وقت انہیں اپنے ادارے اور سربراہ کی سرپرستی  اور آشیر باد بھی حاصل تھی۔ عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے کس طرح اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، اس بارے میں سب جانتے تھے لیکن ادارہ جاتی احتساب تو چھوڑیے، اس وقت ان کی جانچ تک نہیں کی گئی۔ ایسا اس لیے تھا کیونکہ اس وقت وہ جن مقاصد کے لیے کارفرما تھے وہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات کے مطابق تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بعد ازاں وقت بدلا اور عمران خان کی اقتدار سے چھٹی ہو گئی اور پی ٹی آئی اقتدار کے ایوانوں سے سڑک پر آگئی تاہم جنرل فیض حمید نہ بدلے اور انھوں نے اپنا سازشی جال اور تیزی سے بچھانا شروع کر دیاجس پر ان کے اقدامات کی سنگین جانچ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔بعدازاں جنرل فیض کی سرگرمیوں کی تحقیقات میں جو کچھ سامنے آیا وہ اتنا پریشان کن تھا کہ جنرل فیض حمید کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے پہلے آئی ایس آئی سربراہ بن چکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ مقدمہ فوج کا اندرونی معاملہ ہوتا اگر جنرل فیض سے صرف فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں سے متعلق تفتیش کی جارہی ہوتی۔ تاہم ان پر لگائے گئے الزامات میں ان کی سیاست میں مداخلت بھی شامل ہے جس نے معاملات کو پیچیدہ بنادیا ہے۔

فیض حمید پر فرد جرم لگنے کے بعد PTI مذاکرات کیوں چاہتی ہے

پاک فوج کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں ملک میں ’انتشار اور بے امنی سے متعلق پُرتشدد واقعات میں فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق تفتیش بھی جاری ہے جبکہ 9 مئی سے جڑے واقعات میں بھی شامل تفتیش ہیں‘۔ ان پر پُرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما پر شامل ہونے کا الزام بھی ہے۔ وسیع پیمانے پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جنرل فیض حمید کے عزائم مختلف تھے اور وہ اگلا آرمی چیف بننے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔

مبصرین کے مطابق سابق آئی ایس آئی چیف پر عائد الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور ان کے تانے بانے تحریک انصاف سے جوڑے جارہے ہیں اس لئے  فوج کو جنرل فیض حمید کے ٹرائل کی کارروائی کو منظرعام پر لانے کے لیے غور کرنا چاہیے۔ تاکہ عوام یہ جان سکے کہ پراجیکٹ عمران لانے والوں کی اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔

Back to top button