قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فوجی آپریشن کا فیصلہ کیوں نہ ہوا؟

بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ اور مسافروں کے قتل عام کے بعد ریاست کی جانب سے سخت ترین ردعمل کی توقع کی جا رہی تھی اور یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ حکومت کی جانب سے طالبان اور بلوچ دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا جائے گا، تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران اس حوالے سے کوئی واضح اعلان سامنے نہیں آیا۔
سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ تو جاری کردیا گیا ہے لیکن اس میں غیر متوقع طور پر کسی فوجی آپریشن کا ذکر نہیں جسے کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے آخری حل قرار دیا جا رہا تھا۔ اجلاس میں وزیراعظم، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین، آرمی چیف، اہم دفاعی اور حکومتی شخصیات اور سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کے مطابق قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشتگردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی جب کوئی بڑی دہشت گردی ہوتی ہے تو ملک کی سویلین اور عسکری قیادت ایسے ہی بیانات جاری کرتی ہے اور پھر ایک اور بڑے دہشت گرد حملے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق بلوچستان میں ایک مسافر ٹرین کی ہائی جیکنگ اور اس کے بعد اس میں سوار بڑی تعداد میں سویلین اور فوجی جوانوں کے قتل عام کے بعد خیال کیا جا رہا تھا کہ فیصلہ سازوں کی جانب سے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے ایک فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا جائے گا، تاہم ایسا نہیں ہو پایا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق قومی سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئےکار لانےکا فیصلہ کیا ہے۔ ماضی کی طرح جاری ہونے والے روایتی اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی نے قومی سلامتی کی موجودہ صورت حال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر پر تفصیلی غور کیا۔ اسکے علاوہ افغانستان میں شدت پسند دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہر قسم کی ہمدردی کے اظہار کی مذمت کی گئی۔ مذید برآں دہشت گردی کے چیلنج پرقابو پانے کے لیے ضروری قوانین نافذ کرنے اوراداروں کی بھرپور حمایت پر زور دیا گیا۔اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کے لیے مربوط اور منظم حکمت عملی اپنانا ہو گی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کسی بھی گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے گی۔ کمیٹی نے سوشل میڈیا پردہشت گردی کے بیانیے کوفروغ دینے والوں کیخلاف بھی سخت کارروائی کی سفارش کی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن شروع نہ کرنے کے حوالے سے مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی سویلین اور فوجی قیادت طالبان اور بلوچ دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتی ہے لیکن اسے بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے پر بہت ذیادہ لاگت آئے گی، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک پہلے ہی دیگر کئی مہموں میں مصروف ہے جن میں بلوچستان میں علیحدگی پسند باغیوں اور خیبر پختونخواہ میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عزمِ استحکام آپریشن نمایاں ہیں۔
عمران کی پارٹی کھل کردہشت گردوں کے ساتھ کیوں کھڑی ہو گئی؟
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے فوجی آپریشن کے اخراجات اور سیاسی نتائج بہت اہم ہوتے ہیں۔ ریاستی ادارے ایسا سیاسی عمل شروع کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے اقتدار پر ان کا کنٹرول کمزور ہو۔ انہیں ڈر ہے کہ اس سے اور بھی بڑے مسائل پیدا ہو جائیں گے جنہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو پچھلی دو دہائیوں سے فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی چلا رہی ہے اور دہشت گردی بھی انہی دو دہائیوں میں عروج پر پہنچی ہے، خصوصا بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر خان بگتی کے قتل کے بعد۔