تامل ٹائیگرز نے اندرا کے بیٹے راجیو گاندھی کو کیوں قتل کیا ؟

اپنے قتل سے کچھ ہی دیر پہلے امریکی صدر جان ایف کینڈی نے کہا تھا کہ اگر کوئی امریکہ کے صدر کو مارنا چاہتا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی بشرطیکہ کہ قاتل یہ طے کر لے کہ انھیں مارنے کے بدلے وہ اپنی زندگی قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ ’اگر ایسا ہو جاتا ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے نہیں بچا سکتی۔‘
21 مئی 1991 کی رات دس بج کر اکیس منٹ پر تامل ناڈو کے علاقے شری پیرمبدور میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ تیس سال کی ایک خود کش بمبار عورت صندل کا ایک ہار لیکر انڈیا کے وزیراعظم راجیو گاندھی کی جانب بڑھی اور جیسے ہی وہ ان کے پیر چھونے کے لیے جھکی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ اس وقت سٹیج پر راجیو گاندھی کے اعزاز میں ایک نغمہ گایا جا رہا تھا۔ وہاں سے مشکل سے دس گز کی دوری پر گلف نیوز کی نامہ نگار نینا گوپال اس وقت راجیو گاندھی کے معاون صمن دوبے سے بات کر رہی تھیں۔ نینا گوپال نے صرف گھنٹہ پہلے ہی گاڑی کے سفر کے دوران راجیو گاندھی کا انٹرویو کیا تھا جو کہ ان کا آخری انٹرویو ثابت ہوا ہوا۔ نینا گوپال کہتی ہیں کہ ’میری آنکھوں کے سامنے بم پھٹا۔ میں عام طور پر سفید کپڑے نہیں پہنتی، اس دن جلدی میں میں نے ایک سفید ساڑھی پہن لی۔ بم پھٹتے ہی میں نے اپنی ساڑھی کی جانب دیکھا تو وہ پوری طرح سے کالی ہو گئی تھی اور اس پر گوشت کے ٹکڑے اور خون کے چھینٹے تھے۔‘ ’یہ ایک کرشمہ تھا کہ میں بچ گئی۔ میرے آگے کھڑے تمام لوگ اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔‘
نینا بتاتی ہیں کہ ’خود کش بم دھماکے سے پہلے پٹ پٹ پٹ کی پٹاخے جیسی آواز سنائی دیں اور پھر بم پھٹ گیا۔ جب میں آگے بڑھی تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کے کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی، لوگ چیخ رہے تھے اور چاروں جانب بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ راجیو گاندھی زندہ ہیں یا نہیں۔‘ وہ بتاتی ہیں ’اس ہولناک دھماکے کے وقت تمل ناڈو میں کانگریس کے تینوں بڑے رہنما موجود تھے۔ جب دھواں چھٹا تو راجیو گاندھی کی تلاش شروع ہوئی۔ جب لاش ملی تو دیکھا کہ ان کا سر پھٹ چکا تھا اور ان کا مغز نکل کر ان کے سکیورٹی گارڈ پی کے گپتا کے پیروں میں پڑا تھا جو خود بھی اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔‘
کانگریس رہنما جی کے موپنار نے خود کش بم دھماکے میں راجیو کی ہلاکت کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’جیسے ہی دھماکہ ہوا لوگ دوڑنے لگے، میرے سامنے ہر جگہ لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ راجیو کے سکیورٹی گارڈ پردیپ گپتا ابھی زندہ تھے۔ انھوں نے میری جانب دیکھا، کچھ بڑ بڑائے اور میرے سامنے ہی دم توڑ دیا، جیسا کے وہ راجیو گاندھی کو کسی کے حوالے کرنا چاہتے ہوں۔ میں نے ان کا سر اٹھانا چاہا لیکن میرے ہاتھ میں صرف گوشت کے لوتھڑے اور خون ہی آیا، میں نے تولیے سے انھیں ڈھک دیا۔‘
موپنار سے تھوڑی دور ایک اور رہنما جینتی نٹراجن کھڑی تھیں جنھوں نے بعد میں بتایا کہ ’تمام پولیس والے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے، میں لاشوں کو دیکھ رہی تھی اس امید کے ساتھ کہ مجھے راجیو نہ دکھائی دیں۔ پہلے میری نظر پردیپ گپتا پر پڑی، ان کے گھٹنے کے پاس زمین پر اوندھے منہ کوئی پڑا ہوا تھا۔ میرے منہ سے نکلا او مائی گاڈ یہ تو راجیو لگ رہے ہیں۔‘
وہاں موجود صحافی نینا گوپال راجیو کی تلاش میں آگے بڑھتی چلی گئیں جہاں کچھ منٹ پہلے راجیو کھڑے ہوئے تھے۔ نینا بتاتی ہیں ’میں جتنا بھی آگے جا سکتی تھی گئی، تبھی مجھے راجیو گاندھی کی لاش دکھائی دی۔ میں نے ان کا جوتا دیکھا اور ہاتھ دیکھا جس پر گوچی کی گھڑی بندھی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے میں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر ان کا انٹرویو کر رہی تھی، راجیو آگے کی نشت پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی کلائی پر بندھی گھڑی بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ رہی تھی۔‘ وہ بتاتی ہیں ’اتنے میں راجیو گاندھی کا ڈرائیور مجھ سے آ کر بولا کار میں بیٹھیے اور فوراً یہاں سے بھاگیے، میں نے جب کہا کہ میں یہیں رہوں گی تو اس نے کہا کہ یہاں بہت گڑ بڑ ہونے والی ہے۔ ہم نکلے اور اس ایمبیولینس کے پیچھے پیچھے ہسپتال گئے جہاں راجیو کی لاش کو لے جایا جا رہا تھا۔‘
دلی میں راجیو گاندھی کے گھر پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ راجیو کے پرسنل سیکریٹری ونسن جارج اپنے گھر کی جانب نکل چکے تھے۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے ان کا فون بجا اور انھیں خبر دی گئی کہ راجیو کے بارے میں بری خبر ہے۔ جارج واپس دس جنپت بھاگے۔ تب تک سونیا گاندھی اور پرینکا سونے کے لیے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ تبھی ان کے پاس بھی فون آیا کہ سب خیریت تو ہے، سونیا نے انٹرکام پر جارج کو طلب کیا، جارج اس وقت کسی سے فون پر چنئی میں بات کر رہے تھے جس سے انھیں اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ راجیو پر حملہ ہوا ہے لیکن وہ سونیا گاندھی کو بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔ فون چنئی سے تھا اور فون کرنے والا سونیا جی سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ انٹیلی جنس بیورو سے ہے اور حیران پریشان جارج نے پوچھا راجیو کیسے ہیں، دوسری جانب سے کچھ دیر خاموشی رہی۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں چینخے کہ تم بتاتے کیوں نہیں راجیو کیسے ہیں، جواب میں فون کرنے والے نے کہا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور پھر لائن کٹ گئی۔‘
جارج سونیا کا نام پکارتے ہوئے دوڑے، سونیا باہر آئیں اور انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کچھ انہونی ہوئی ہے۔ جارج نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ’میڈیم چنئی میں ایک بم حملہ ہوا ہے، سونیا نے پوچھا کہ کیا وہ ٹھیک ہیں لیکن جارج کی خاموشی نے سونیا کو سب کچھ بتا دیا۔ اس کے بعد دس جنپت نے پہلی بار سونیا کی چینخیں سنیں۔ وہ اتنی زور سے رو رہی تھیں کہ باہر جمع ہونے والے کانگریسی رہنماؤں کو ان کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔‘ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سی آر پی ایف کے نیم فوجی دستے کے آئی جی ڈاکٹر ڈی آر کارتکِین کی قیادت میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔ کچھ ہی مہینوں میں اس قتل کے الزام میں ایل ٹی ٹی ای کے سات ممبران کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس معاملے میں مشتبہ شخص شو راسن اور اس کے ساتھیوں نے گرفتار ہونے سے پہلے ہی سائنائڈ کھا لیا۔
ایک سال کے اندر چارج شیٹ داخل کر دی گئی۔ ڈاکٹر کارتکین کے مطابق ایک کیمرے سے دس تصاویر کا ملنا ہماری بڑی کامیابی تھی۔ ہم نے عام لوگوں سے پوچھ گچھ کے لیے اخباروں میں اشتہار دیے اور ایک نمبر بھی دیا۔ ہمارے پاس تین سے چار ہزار فون آئے، ہر ایک کو سنجیدگی سے دیکھا گیا۔ ہم نے چاروں جانب چھاپے مارنے شروع کیے اور جلد ہی ہمیں کامیابی ملنی شروع ہو گئی۔’ اندرا گاندھی کے پرنسپل سیکریٹی پی سی الیگزینڈر نے اپنی کتاب ’مائی ڈیز ود اندرا گاندھی‘ میں لکھا ہے کہ اندرا کے قتل کے کچھ گھنٹوں کے اندر اندر انھوں نے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ کے برآمدے میں سونیا اور راجیو کو لڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ راجیو سونیا کو بتا رہے تھے کہ پارٹی چاہتی ہے کہ میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لوں، سونیا نے اس کی سخت مخالفت کی اور کہا تھا ’ہرگز نہیں، وہ تمھیں بھی مار ڈالیں گے‘۔ راجیو کا جواب تھا ’میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ میں ویسے بھی مارا جاؤں گا۔‘ سات سال بعد راجیو کے کہے الفاظ صحیح ثابت ہو گئے اور وہ بھی اپنی ماں اندرا گاندھی کی طرح مارے گئے۔
یاد رہے کہ راجیو گاندھی کو تامل ٹائیگرز آف تامل ایلم یعنی ایل ٹی ٹی ای کی ایک خود کش خاتون بمبار نے 21 مئی 1991 کو ایک بم حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔ خود کش بمبار دھنو نام کی ایک لڑکی تھی اور یہ حملہ تامل ناڈو میں کیا گیا تھا جہاں اس وقت بڑی تعداد میں سری لنکا کی خانہ جنگی سے بھاگ کر انڈیا آنے والے تملوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ راجیو گاندھی نے خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے سری لنکا کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے بعد سنہ 1987 میں ایک قیام امن فورس سری لنکا بھیجی تھی لیکن چند ہی مہینوں کے اندر بھارتی فوج اور تمل ٹائیگرز کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی تھی۔
مانا جاتا ہے کہ تامل ٹائیگرز نے انتقام لینے کے لیے راجیو گاندھی کو قتل کیا تھا۔ راجیو گاندھی کے قتل کے وقت سری لنکا پر وزیر اعظم پریما داسا کی حکومت تھی جو راجیو گاندھی کو شدید نا پسند کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت اپنی مداخلت سری لنکا میں مکمل طور پر روک دے۔