عمراندار ججز آپس میں ہی لڑ پڑے، ایک جج کے چیف جسٹس پر الزامات

سپریم کورٹ میں گروپنگ اور تقسیم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس عامر فاروق کے اقدامات کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فیصلے واپس لینے کا مطالبہ کر دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے جسٹس بابر ستار سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے ایک خط لکھ کر دیگر ہائیکورٹس سے ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر کی سخت مخالفت کی تھی تاہم جہاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیی آفریدی نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا تھا وہیں ججز کی ٹرانسفر کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے سنیارٹی تبدیل کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی کی جگہ لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینئر پیونی جج مقرر کر دیا تھا۔تاہم اس کے باوجود عمرانڈو ججز باز آتے نظر نہیں آتے۔ جس کی وجہ سے اب ایک بار پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں 3 ججز کی ٹرانسفر کا معاملہ مزید الجھتا دکھائی دیتا ہے۔ تازہ پیشرفت کے مطابق جسٹس بابرستار نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونے والے 3 ججوں کے معاملے چیف جسٹس عامر فاروق کو 6 صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا۔جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں نہ صرف ٹرانسفر ججوں کی سینیارٹی لسٹ جاری کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا بلکہ چیف جسٹس عامر فاروق کے ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی تبدیلی کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے

عدالت عالیہ کے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کو خط لکھ کر کہا ہے کہ 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔جسٹس بابر ستار نے خط میں لکھا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے نوٹی فکیشن واپس لیے جائیں۔

جسٹس بابر ستار کا اپنے خط میں مزید کہنا تھا کہ سینیارٹی لسٹ اور ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹی فکیشن جاری کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ جج کے حلف اٹھائے ٹرانسفر ججز کو کمیٹی میں رکھنے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔جسٹس بابر ستار نے خط میں مزید لکھا کہ ٹرانسفر نوٹی فکیشن میں کہیں نہیں لکھا کہ ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل، آرٹیکل 194 کے تحت ہمارے معزز ساتھی ججز نے اپنی اپنی ہائی کورٹس کا حلف اٹھا رکھا ہے۔

خط میں ان کا مزید کہنا تھا کہ حلف میں تینوں ججز نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنی اپنی ہائی کورٹس میں بطور جج اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کے بعد تینوں ججز نے حلف نہیں اٹھایا، جو اٹھانا ضروری تھا۔جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ حلف کے بغیر وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی ڈیوٹی شروع نہیں کر سکتے تھے، ان کو حلف کے بغیر جوڈیشل اور انتظامی کام کے لحاظ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا کہ آپ کی زیر نگرانی تینوں ججز آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی میں بغیر حلف اٹھائے تین فروری سے جوڈیشل کام شروع کر رہے ہیں، آرٹیکل 194 کے تحت بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ تینوں ججز سے حلف لیتے۔ بغیر حلف اٹھائے ججز سے جوڈیشل اور انتظامی کام لینا بعد میں ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے، جسٹس بابر ستار کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کا نوٹی فکیشن اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011 کی خلاف ورزی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے مزید لکھا کہ اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز کے مطابق ایڈمنسٹریشن کمیٹی چیف جسٹس اور 2 ججز پر مشتمل ہو گی، اس لحاظ سے چیف جسٹس 9 ویں نمبر کے جج جسٹس خادم سومرو کو کمیٹی میں شامل نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم بے تکے طریقے سے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کی گئی، ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے 2 ججز کو شامل کر لیا گیا، جن کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ابھی انتظامی کوئی تجربہ نہیں۔

خط میں مزید مؤقف اپنایا گیا کہ تین دن پہلے ان کی ٹرانسفر کا نوٹی فکیشن جاری ہوا ساتھ ہی کمیٹی میں شامل کر لیا گیا، ہم تقریبا روزانہ جوڈیشل سائیڈ پر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ایگزیکٹو قانون کے مطابق شفاف طریقے سے اختیار استعمال کر سکتا ہے۔جسٹس بابر ستار نے خط میں مزید کہا کہ آپ اتفاق کریں گے ججز بھی صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کے اتنے ہی پابند ہیں، جتنا ہم ایگزیکٹو کو کہتے ہیں۔

حکومت ایک سال میں پراجیکٹ عمران کو لپیٹنے میں کس حد تک کامیاب رہی؟

واضح رہے کہ یکم فروری کو لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کر دیا گیا تھا۔نوٹی فکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی کمیٹی تبدیل کردی گئی تھی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق عدالت کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہو گئے تھے۔اسی طرح سینئر پیونی جج جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کو ممبران مقرر کیا گیا تھا۔ جس پر اب جسٹس بابر ستار نے بغاوت کر دی ہے۔

Back to top button