پہلگام حملہ، 12واں واقعہ بھارتی فوج روکنے میں ناکام کیوں رہی ؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خوبصورت وادی پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں پر ہونے والے حملے سے پہلے درجن بھر ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں، جو کہ کشمیر میں تعینات لاکھوں بھارتی افواج  کی صریحا ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر نے ماضی میں اس علاقے میں ہونے والے حملوں کی تاریخ بیان کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15 اگست 1993 کو اس علاقے میں امرناتھ یاتریوں پر حملے میں 8 لوگ مارے گئے تھے۔ 1994 میں ایک اور حملے میں 5 افراد مارے گئے، 1998 کے حملے میں 20 لوگوں کی جان گئی، 2000 کے حملے میں 32 افرا مارے گے، 2001 میں 13 افراد کی جان گئی، 2002 میں 9 لوگ مارے گے، 2006 میں 5 لوگوں کو قتل کیا گیا 2012 میں 7 افراد ہلاک ہوئے، 2022 میں 4 لوگ مارے گے، سال 2024 میں 10 ہندو یاتری مارے گئے۔

حامد میر کے مطابق پچھلے سال 19 مئی 2024 کو مقبوضہ کشمیر کی اس وادی میں سیاحوں پر ہونے والے آخری حملے کے بعد ضروری تھا کہ اس برس سیاحوں کو ممکنہ حملے سے خبردار رکھا جاتا، لیکن انڈین سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا نے بھی اپنے عوام کو ممکنہ خطرات سے آگاہ نہیں کیا حالانکہ پہلگام کے جنگلات میں سیکورٹی فورسز آئے روز سرچ آپریشن کرتی ہیں۔ ستمبر 2023ء میں اننت ناگ کے علاقے کُکر ناگ کے پہاڑی جنگل میں بھارتی فوج نے مقامی پولیس کے ساتھ مل کر آخری سرچ آپریشن کیا تھا جس میں بھارتی ایئرفورس کے ڈرون بھی شامل تھے۔ جنگل میں کئی دن تک شدید لڑائی ہوئی جس میں راشٹریا رائفلز کے کرنل من پریت سنگھ اور جموں و کشمیر پولیس کے ایک ایس پی ہمایوں بھٹ سمیت کئی افسران مارے گئے۔ یہ لڑائی اسی کشمیری گروپ سے ہوئی جس نے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دی ریزسٹنس فرنٹ یعنی محاذ برائے مزاحمت نامی یہ گروپ 2019 میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 ختم کیے جانے کے ردعمل میں  قائم کیا گیا تھا ۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ اس گروپ کے کمانڈر شیخ سجاد گل کا تعلق سرینگر سے ہے جو دہلی کی تہاڑ جیل میں چار سال قید گزار کر 2006 میں رہا ہوا اور 5 اگست 2019 کو دوبارہ متحرک ہوا۔ یہ گروپ غیر مقامی ہندوئوں کو مقبوضہ ریاست کے ڈومیسائل جاری کرنے کی پالیسی کے خلاف سرگرم عمل ہے، لیکن نہتے سیاحوں پر حملہ کسی صورت آزادی کی جنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے حملے کہیں بھی، ہوں حملہ آوروں کی نسل، قوم اور مذہب کیلئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ پہل گام کا مطلب گڈریوں کی بستی ہے۔ کشمیری زبان میں گڈریوں کو ’’پہل‘‘ کہتے ہیں اور ’’گام‘‘ کے معنی گائوں یا بستی کے ہیں۔ پرانے زمانے میں پہل گام صرف ایک خوبصورت چراگاہ تھی اور یہاں گڈریوں کے کچھ گھر تھے۔ 22 اپریل 2025 کے بعد سے انڈین میڈیا مسلسل اس خوبصورت چراگاہ کو ہندوئوں کی قتل گاہ قرار دیکر بغیر کسی ثبوت کے اسکا الزام پاکستان پر لگارہا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ 22 اپریل کی دوپہر پہل گام میں 27 بھارتی سیاحوں کا بے دردی سے قتل انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ واقعہ ناصرف غیر انسانی بلکہ غیراسلامی ہے کیونکہ نہتے غیر مسلموں کے قتل کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لئے اگر ہم بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے نہتے مسافروں پر حملے کی مذمت کرتے ہیں تو ہمیں پہل گام میں نہتے سیاحوں پر حملے کی بھی مذمت کرنی چاہئے۔ دہشت گردی کے اس واقعے کا سب سے قابل غور پہلو یہ ہے کہ جنگلات سے گھری اس بلند و بالا گڈریوں کی بستی میں تامل ناڈو، مہاراشٹر اور دیگر بھارتی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کیلئے مناسب حفاظتی انتظامات کیوں نہ کئے گئے تھے؟ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ اور جغرافیے پر نظر رکھنے والے ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہل گام کا علاقہ کئی دہائیوں سے بھارتی شہریوں کیلئے غیرمحفوظ ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنے شہریوں کو اس علاقے میں ممکنہ خطرات سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟

حامد میر سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ بھارتی سیکورٹی فورسز کی ناکامی نہیں ہے کہ اچانک جنگل میں سے ایم فور امریکی رائفلوں اور اے کے 47 رائفلوں کے ساتھ عسکریت پسند نمودار ہوئے اور انہوں نے بہت سے ہنستے گاتے سیاحوں کو گھیرا ڈال کر صرف مردوں کو گولیاں ماریں، عورتیں اور بچے انکی گولیوں کا نشانہ نہیں بنے۔ جب ایک عورت کے سامنے اس کے خاوند کو گولی ماری گئی تو اسنے عسکریت پسند سے کہا کہ مجھے بھی گولی مار دو لیکن عسکریت پسند نے ایسا نہیں کیا۔ کچھ عرصہ قبل مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ بتایا گیا تھا کہ 2024 میں 35 لاکھ سیاح ریاست کے مختلف مقامات کی سیر کرنے آئے ان میں 43 ہزار غیر ملکی سیاح تھے بھارتی میڈیا نے ان اعداد و شمار کی بنیاد پر مقبوضہ ریاست میں تحریک آزادی کے خاتمےکا اعلان کر دیا۔ پہل گام میں نہتے بھارتی سیاحوں کے قتل کی ذمہ داری ایک طرف بھارتی سیکورٹی اداروں پر عائد ہوتی ہے اور دوسری طرف اس کا ذمہ دار وہ کنٹرولڈ میڈیا ہے جس نے بھارتی عوام کو یہ نہیں بتایا کہ پہل گام ان کیلئے بہت غیر محفوظ علاقہ ہے۔

پہلگام میں غیر ملکی سیاحوں کو مارنے والی تنظیم کا سربراہ کون ؟

حامد میر کہتے ہیں کہ 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں انڈین آرمی کے قافلے پر حملے کے بعد 26 فروری 2019 کو انڈیا نے پاکستان پر ایک فضائی حملہ کر کے اپنا ہی نقصان کیا تھا۔ 22 اپریل کے پہل گام حملے کے بعد پاکستان کے خلاف پھر ایسے ہی کسی ایڈونچر کا خطرہ موجود ہے، لیکن واضح رہے کہ مسئلہ کشمیر کسی ایڈونچر سے نہیں آخر کار بات چیت سے طے ہو گا۔

Back to top button